كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: «كُنَّ نِسَاءُ المُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلاَةَ، لاَ يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الغَلَسِ»
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
باب: نماز فجر کا وقت
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں لیث نے خبر دی، انھوں نے عقیل بن خالد سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انھیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔
تشریح :
امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجرکی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہوجایا کرتی تھی۔ لفظ “ غلس ” کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت “ غلس ” اور آخر وقت “ اسفار ” معلوم ہوجائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔
جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ عن ابی مسعود الانصاری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی صلوٰۃ الصبح مرۃ بغلس ثم صلی مرۃ اخری فاسفربہا ثم کانت صلوٰتہ بعدذالک التغلیس حتی مات ولم یعدالی ان یسفر رواہ ابوداؤد ورجالہ فی سنن ابی داؤد رجال الصحیح۔ یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر غلس ( اندھیرے ) میں پڑھائی اورپھر ایک مرتبہ اسفار ( یعنی اجالے ) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔
حدیث “ عائشہ ” کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی استحباب المبادرۃ بصلوٰۃ الفجر فی اول الوقت وقد اختلف العلماءفی ذلک فذہب العترۃ ومالک والشافعی و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعی وداؤد بن علی وابوجعفر الطبری وہوالمروی عن عمروبن عثمان وابن الزبیر وانس وابی موسیٰ وابی ہریرۃ الی ان التغلیس افضل وان الاسفار غیرمندوب وحکی ہذاالقول الحازمی عن بقیۃ الخلفاءالاربعۃ وابن مسعود وابی مسعود الانصاری واہل الحجاز واحتجوا بالاحادیث المذکورۃ فی ہذاالباب وغیرہا ولتصریح ابی مسعود فی الحدیث بانہا کانت صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم التغلیس حتیٰ مات ولم یعدالی الاسفار۔ ( نیل، ج2، ص:19 )
خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز “ غلس ” یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اورخلفائے اربعہ اوراکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اوردیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اورسارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: عن مغیث بن سمی قال صلیت مع عبداللہ بن الزبیر الصبح بغلس فلما سلم اقبلت علی ابن عمر فقلت ماہذہ الصلوٰۃ قال ہذہ صلوٰتنا کانت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر فلما طعن عمر اسفربہا عثمان و اسنادہ صحیح۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:144 ) یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اورحضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگرجب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیاگیاتو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔
یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت وافضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہرشخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اورآخروقت طلوع شمس ہے اوردرمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام وخواص برادران پر جو کبھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناپر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اورایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خوداکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہاہے۔
دیوبند میں نماز فجر غلس میں:
صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیاہے، اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینو ںمیں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعدفوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہوکر سونہ جائیں۔ اورنماز ہی فوت ہوجائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہدسے اس پر عمل رہاہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔ ( تفہیم بخاری، پ3، ص:34 )
محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایاہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ غلس میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان وغیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔
بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کرلیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہوسکیں اورسردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔
بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اوراسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔
امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجرکی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہوجایا کرتی تھی۔ لفظ “ غلس ” کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت “ غلس ” اور آخر وقت “ اسفار ” معلوم ہوجائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔
جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ عن ابی مسعود الانصاری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی صلوٰۃ الصبح مرۃ بغلس ثم صلی مرۃ اخری فاسفربہا ثم کانت صلوٰتہ بعدذالک التغلیس حتی مات ولم یعدالی ان یسفر رواہ ابوداؤد ورجالہ فی سنن ابی داؤد رجال الصحیح۔ یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر غلس ( اندھیرے ) میں پڑھائی اورپھر ایک مرتبہ اسفار ( یعنی اجالے ) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔
حدیث “ عائشہ ” کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی استحباب المبادرۃ بصلوٰۃ الفجر فی اول الوقت وقد اختلف العلماءفی ذلک فذہب العترۃ ومالک والشافعی و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعی وداؤد بن علی وابوجعفر الطبری وہوالمروی عن عمروبن عثمان وابن الزبیر وانس وابی موسیٰ وابی ہریرۃ الی ان التغلیس افضل وان الاسفار غیرمندوب وحکی ہذاالقول الحازمی عن بقیۃ الخلفاءالاربعۃ وابن مسعود وابی مسعود الانصاری واہل الحجاز واحتجوا بالاحادیث المذکورۃ فی ہذاالباب وغیرہا ولتصریح ابی مسعود فی الحدیث بانہا کانت صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم التغلیس حتیٰ مات ولم یعدالی الاسفار۔ ( نیل، ج2، ص:19 )
خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز “ غلس ” یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اورخلفائے اربعہ اوراکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اوردیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اورسارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: عن مغیث بن سمی قال صلیت مع عبداللہ بن الزبیر الصبح بغلس فلما سلم اقبلت علی ابن عمر فقلت ماہذہ الصلوٰۃ قال ہذہ صلوٰتنا کانت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر فلما طعن عمر اسفربہا عثمان و اسنادہ صحیح۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:144 ) یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اورحضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگرجب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیاگیاتو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔
یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت وافضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہرشخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اورآخروقت طلوع شمس ہے اوردرمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام وخواص برادران پر جو کبھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناپر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اورایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خوداکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہاہے۔
دیوبند میں نماز فجر غلس میں:
صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیاہے، اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینو ںمیں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعدفوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہوکر سونہ جائیں۔ اورنماز ہی فوت ہوجائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہدسے اس پر عمل رہاہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔ ( تفہیم بخاری، پ3، ص:34 )
محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایاہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ غلس میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان وغیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔
بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کرلیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہوسکیں اورسردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔
بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اوراسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔