كِتَابُ الطِّبِّ بَابُ لاَ عَدْوَى صحيح وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سِنَانُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيُّ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ عَدْوَى» فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ الإِبِلَ، تَكُونُ فِي الرِّمَالِ أَمْثَالَ الظِّبَاءِ، فَيَأْتِيهَا البَعِيرُ الأَجْرَبُ فَتَجْرَبُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ»
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
باب: امراض میں چھوت لگنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے
اور زہری سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سنان بن ابی سنان دؤلی نے خبر دی اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوت کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس پر ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر پوچھا آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک اونٹ ریگستان میں ہرن جیسا صاف رہتا ہے لیکن جب وہی ایک خارش والے اونٹ کے پاس آجاتا ہے تو اسے بھی خارش ہوجاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی ۔
تشریح :
یہی اس کا ثبوت ہے کہ چھوت کی کوئی حقیقت نہیںہے۔ اگر کہیں کہ اس کو کسی اور اونٹ سے خارش لگی تھی تو اس اونٹ کو کس سے لگی ۔ آخر میں تسلسل لازم آئے گا جو محال ہے یا یہ کہنا ہوگا کہ ایک اونٹ کو خود بخود خارش پیدا ہوئی تھی آپ نے ایسی دلیل عقلی منطقی بیان فرمائی کہ اطباءکا لنگڑا ٹٹو اس کے سامنے چل ہی نہیں سکتا۔ اب جو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض بیماریاں جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ ایک بستی سے دوسری بستی میں پھیلتی ہیں یا ایک شخص کے بعد دوسرے کو ہوجاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری منتقل ہوئی ہے بلکہ بحکم الٰہی اس دوسری بستی یا شخص میں بھی پیدا ہوئی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں بعض طاعون سے مرتے ہیں بعض نہیں مرتے اور ایک ہی شفا خانہ میں ڈاکٹر نرس وغیرہ طاعون والوں کا علاج کرتے ہیں پھر بعض ڈاکٹر وں نرسوں کو طاعون ہو جاتا ہے بعض کو نہیں ہوتا اگر چھوت لگنا ہوتا تو سب ہی کو ہوجاتا لہٰذا وہی حق ہے جو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر وہم کی دوا افلاطون کے پاس بھی نہیں ہے ( وحیدی )
یہی اس کا ثبوت ہے کہ چھوت کی کوئی حقیقت نہیںہے۔ اگر کہیں کہ اس کو کسی اور اونٹ سے خارش لگی تھی تو اس اونٹ کو کس سے لگی ۔ آخر میں تسلسل لازم آئے گا جو محال ہے یا یہ کہنا ہوگا کہ ایک اونٹ کو خود بخود خارش پیدا ہوئی تھی آپ نے ایسی دلیل عقلی منطقی بیان فرمائی کہ اطباءکا لنگڑا ٹٹو اس کے سامنے چل ہی نہیں سکتا۔ اب جو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض بیماریاں جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ ایک بستی سے دوسری بستی میں پھیلتی ہیں یا ایک شخص کے بعد دوسرے کو ہوجاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری منتقل ہوئی ہے بلکہ بحکم الٰہی اس دوسری بستی یا شخص میں بھی پیدا ہوئی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں بعض طاعون سے مرتے ہیں بعض نہیں مرتے اور ایک ہی شفا خانہ میں ڈاکٹر نرس وغیرہ طاعون والوں کا علاج کرتے ہیں پھر بعض ڈاکٹر وں نرسوں کو طاعون ہو جاتا ہے بعض کو نہیں ہوتا اگر چھوت لگنا ہوتا تو سب ہی کو ہوجاتا لہٰذا وہی حق ہے جو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر وہم کی دوا افلاطون کے پاس بھی نہیں ہے ( وحیدی )