‌صحيح البخاري - حدیث 5763

كِتَابُ الطِّبِّ بَابُ السِّحْرِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ عِنْدِي، لَكِنَّهُ دَعَا وَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ، وَجُفِّ طَلْعِ نَخْلَةٍ ذَكَرٍ. قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:137] فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَجَاءَ فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، أَوْ كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ اسْتَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: «قَدْ عَافَانِي اللَّهُ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ فِيهِ شَرًّا» فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ، وَأَبُو ضَمْرَةَ، وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، وَقَالَ: اللَّيْثُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامٍ: «فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ» يُقَالُ: المُشَاطَةُ: مَا يَخْرُجُ مِنَ الشَّعَرِ إِذَا مُشِطَ، وَالمُشَاقَةُ: مِنْ مُشَاقَةِ الكَتَّانِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5763

کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں باب: جادو کا بیان ہم سے ابراہیم بن موسیٰ اشعری نے بیان کیا ، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی ، انہیں ہشام بن عروہ نے ، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا تھا اور اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا ۔ ایک دن یا ( راوی نے بیان کیا کہ ) ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اورمسلسل دعا کررہے تھے پھر آپ نے فرمایا عائشہ ! تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا ، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا ۔ میرے پاس دو ( فرشتے حضرت جبرئیل وحضرت میکائیل علیہما السلام ) آئے ۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف ۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہواہے ۔ اسنے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے ۔ پوچھا کس چیز میں ؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں ۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں ؟ جواب دیا کہ زر وان کے کنویں میں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا عائشہ ! اس کا پانی ایسا ( سرخ ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر ( اوپر کا حصہ ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کردیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤ ں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جادو کا سامان کنگھی بال خرما کا غلاف ہوتے ہیں اسی میں دفن کرادیا ۔ عیسیٰ بن یونس کے ساتھ اس حدیث کو ابو اسامہ اور ابو ضمرہ ( انس بن عیاض ) اورابن ابی الزناد تینوں نے ہشام سے یوں روایت کیا ہے ” فی مشط ومشاقۃ مشاطۃ “ اسے کہتے ہیں جوبال کنگھی کرنے میں نکلیں سر یا داڑھی کے اور مشاقہ روئی کے تار یعنی سوت کے تار کو کہتے ہیں ۔
تشریح : قال النووی خشی من اخراجہ واشاعتہ ضررا علی المسلمین من تذکر السحر ونحو ذالک وھو من باب ترک المصلحۃ خوف المنسرۃ ( فتح ) نووی نے کہا کہ آپ نے اس جادو کے نکالنے اور اس کا ذکر پھیلانے سے احتراز فرمایا تاکہ جادو کے سکھانے اور اس کے ذکر کرنے سے مسلمانوں کو نقصان نہ ہو۔ اسی خوف فساد کی بنا پر مصلحت کے تحت آپ نے اسی وقت اس کا خیال چھوڑ دیا۔ قال النووی خشی من اخراجہ واشاعتہ ضررا علی المسلمین من تذکر السحر ونحو ذالک وھو من باب ترک المصلحۃ خوف المنسرۃ ( فتح ) نووی نے کہا کہ آپ نے اس جادو کے نکالنے اور اس کا ذکر پھیلانے سے احتراز فرمایا تاکہ جادو کے سکھانے اور اس کے ذکر کرنے سے مسلمانوں کو نقصان نہ ہو۔ اسی خوف فساد کی بنا پر مصلحت کے تحت آپ نے اسی وقت اس کا خیال چھوڑ دیا۔