كِتَابُ الطِّبِّ بَابُ الكِهَانَةِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ اقْتَتَلَتَا، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَأَصَابَ بَطْنَهَا وَهِيَ حَامِلٌ، فَقَتَلَتْ وَلَدَهَا الَّذِي فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى: أَنَّ دِيَةَ مَا فِي بَطْنِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ، فَقَالَ وَلِيُّ المَرْأَةِ الَّتِي غَرِمَتْ: كَيْفَ أَغْرَمُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ لاَ شَرِبَ وَلاَ أَكَلَ، وَلاَ نَطَقَ وَلاَ اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الكُهَّانِ»
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
باب: کہا نت کا بیان
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اوران سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں کے بارے میں جنہوں نے جھگڑا کیا تھا یہاں تک کہ ان میں سے ایک عورت ( ام عطیف بنت مروح ) نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا ( جس کا نام ملیکہ بنت عویمر تھا ) وہ پتھر عورت کے پیٹ میں جاکر لگا ۔ یہ عورت حاملہ تھی اس لیے اس کے پیٹ کا بچہ ( پتھر کی چوٹ سے ) مرگیا ۔ یہ معاملہ دونوں فریق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ عورت کے پیٹ کے بچہ کی دیت ایک غلام یا باندی آزاد کرنا ہے جس عورت پر تاوان واجب ہوا تھا اس کے ولی ( حمل بن مالک بن نابغہ ) نے کہا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میں ایسی چیز کی دیت کیسے دے دوں جس نے کھایا نہ پیا نہ بولا اورنہ ولادت کے وقت اس کی آواز ہی سنائی دی ؟ ایسی صورت میں تو کچھ بھی دیت نہیں ہو سکتی ۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ یہ شخص تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے ۔
تشریح :
جب ہی توکاہنوں کی طرح مسجع اور مقفیٰ فقرے بولتا ہے۔ وانما لم یعاقبہ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم کان مامورا بالصفح من الجاھلین وفی الحدیث منہ الفوائد ایضا رفع الجنابۃ للحاکم ووجب الدیۃ للجنین ولو خرج میتا ( فتح ) یعنی حمل بن مالک کے اس کہنے پر آپ نے اس کو کوئی عتاب نہیں فرمایا اس لیے کہ جاہلوں سے در گزر کرنا اسی کے لیے آپ مامور تھے اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جیسے مقدمہ حاکم کے پاس لے جانا اور جنین اگر چہ مردہ پیدا ہوا ہو مگر اس کی دیت کا واجب ہونا یہ بھی معلوم ہواکہ اس شخص کا بیان شاعرانہ تخیل تھا حقیقت میں اس کی کوئی اصلیت نہ تھی۔
جب ہی توکاہنوں کی طرح مسجع اور مقفیٰ فقرے بولتا ہے۔ وانما لم یعاقبہ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم کان مامورا بالصفح من الجاھلین وفی الحدیث منہ الفوائد ایضا رفع الجنابۃ للحاکم ووجب الدیۃ للجنین ولو خرج میتا ( فتح ) یعنی حمل بن مالک کے اس کہنے پر آپ نے اس کو کوئی عتاب نہیں فرمایا اس لیے کہ جاہلوں سے در گزر کرنا اسی کے لیے آپ مامور تھے اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جیسے مقدمہ حاکم کے پاس لے جانا اور جنین اگر چہ مردہ پیدا ہوا ہو مگر اس کی دیت کا واجب ہونا یہ بھی معلوم ہواکہ اس شخص کا بیان شاعرانہ تخیل تھا حقیقت میں اس کی کوئی اصلیت نہ تھی۔