‌صحيح البخاري - حدیث 5679

كِتَابُ الطِّبِّ بَابٌ: هَلْ يُدَاوِي الرَّجُلُ المَرْأَةَ أَوِ المَرْأَةُ الرَّجُلَ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ رُبَيِّعَ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، قَالَتْ: كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَسْقِي القَوْمَ وَنَخْدُمُهُمْ، وَنَرُدُّ القَتْلَى وَالجَرْحَى إِلَى المَدِينَةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5679

کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں باب: کیا مرد کبھی عورت کا یا کبھی عورت مرد کا علاج کرسکتی ہے ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، ان سے خالد بن ذکوان نے اور ان سے ربیع بنت معوذ بن عفراءرضی اللہ عنہم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں اور مسلمان مجاہد کو پانی پلاتی ، ان کی خدمت کرتی اور مقتولین اور مجروحین کو مدینہ منورہ لایا کرتی تھیں ۔
تشریح : باب کا مطلب اس سے نکلا کہ مستورات جنگ وجہاد میں شریک ہو کر مجروحین کی تیمار داری اور مرہم پٹی وغیرہ کی خدمات انجام دیتی تھیں پس باب کا مدعا ثابت ہو گیامگر دریں حالات بھی اعضائے پردہ کا ستر ضروری ہے۔ مولانا وحید الزماں فرماتے ہیں مسلمانو! دیکھو تم وہ قوم ہوکہ تمہاری عورتیں بھی جہاد میں جایا کرتی تھیں، مجاہدین کے کام کاج خدمت وغیرہ علاج ومعالجہ میں نرس کاکام کیا کرتی تھیں، ضرورت ہوتی تو ہتھیار لے کر کافروں سے مقابلہ بھی کرتی تھیں حضرت خولہ بن ت ازور رضی اللہ عنہا کی بہادری مشہور ہے کہ کس قدر نصاریٰ کو انہوں نے تیر اور تلوار سے مارا، شیر نیستان کی طرح حملہ کرتیں ۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب گرزلے کر بنی قریظہ کے یہود کو مارنے کے لیے مستعد ہو گئیں یا اب تمہارے مردوں کا یہ حال ہے کہ توپ بندوق آواز سنتے ہی یا تلوار کی چمک دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شرعی پردہ صرف اس قدر ہے کہ عورت اپنے اعضاءجن کا چھپانا غیر محرم سے فرض ہے وہ چھپائے رکھے نہ یہ کہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ ترجمہ باب کا ایک جزو یعنی مرد عورت کی تیمار داری کرے گو حدیث میں بصراحت مذکور نہیں ہے لیکن دوسرے جزو پر قیاس کیا گیا ہے قسطلانی نے کہا عورت جب مرد کا علاج کرے تو اگر مرد محرم ہے توکوئی اشکال ہی نہیں ہے اگر غیر محرم ہے تو جب بھی اسے ضرورت کے وقت بقدر احتیاج چھونا یا دیکھنا درست ہے۔ باب کا مطلب اس سے نکلا کہ مستورات جنگ وجہاد میں شریک ہو کر مجروحین کی تیمار داری اور مرہم پٹی وغیرہ کی خدمات انجام دیتی تھیں پس باب کا مدعا ثابت ہو گیامگر دریں حالات بھی اعضائے پردہ کا ستر ضروری ہے۔ مولانا وحید الزماں فرماتے ہیں مسلمانو! دیکھو تم وہ قوم ہوکہ تمہاری عورتیں بھی جہاد میں جایا کرتی تھیں، مجاہدین کے کام کاج خدمت وغیرہ علاج ومعالجہ میں نرس کاکام کیا کرتی تھیں، ضرورت ہوتی تو ہتھیار لے کر کافروں سے مقابلہ بھی کرتی تھیں حضرت خولہ بن ت ازور رضی اللہ عنہا کی بہادری مشہور ہے کہ کس قدر نصاریٰ کو انہوں نے تیر اور تلوار سے مارا، شیر نیستان کی طرح حملہ کرتیں ۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب گرزلے کر بنی قریظہ کے یہود کو مارنے کے لیے مستعد ہو گئیں یا اب تمہارے مردوں کا یہ حال ہے کہ توپ بندوق آواز سنتے ہی یا تلوار کی چمک دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شرعی پردہ صرف اس قدر ہے کہ عورت اپنے اعضاءجن کا چھپانا غیر محرم سے فرض ہے وہ چھپائے رکھے نہ یہ کہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ ترجمہ باب کا ایک جزو یعنی مرد عورت کی تیمار داری کرے گو حدیث میں بصراحت مذکور نہیں ہے لیکن دوسرے جزو پر قیاس کیا گیا ہے قسطلانی نے کہا عورت جب مرد کا علاج کرے تو اگر مرد محرم ہے توکوئی اشکال ہی نہیں ہے اگر غیر محرم ہے تو جب بھی اسے ضرورت کے وقت بقدر احتیاج چھونا یا دیکھنا درست ہے۔