كِتَابُ المَرْضَى بَابُ مَنْ دَعَا بِرَفْعِ الوَبَاءِ وَالحُمَّى صحيح حَدَّثَنا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ وَبِلاَلٌ، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ وَيَا بِلاَلُ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَتْ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الحُمَّى يَقُولُ: [البحر الرجز] كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ ... وَالمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلاَلٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ فَيَقُولُ: [البحر الطويل] أَلاَ لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً ... بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مِجَنَّةٍ ... وَهَلْ تَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا المَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ»
کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
باب: جو شخص وبا اور بخار کے دور کرنے کے لیے دعا کرے
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا مجھ سے امام مالک نے ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے توحضرت ابو بکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما کو بخار ہو گیا ۔ بیان کیا کہ پھر میں ان کے پاس ( بیمار پرسی کے لیے ) گئی اور پوچھا کہ محترم والد بزرگوار ! آپ کا کیا حال ہے اور اے بلال رضی اللہ عنہ ! آپ کا کیا حال ہے بیان کیا کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔
” ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے
اور موت اس کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے “
اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا تو بلند آواز سے وہ یہ اشعار پڑھتے ۔
راوی نے بیان کیاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاپھر میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کہا تو آپ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا کر جیسا کہ ہمیں ( اپنے وطن ) مکہ کی محبت تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ مدینہ کی محبت عطا کر اور اس کی آب وہوا کو صحت بخش بنادے اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما اوراس کے بخار کو کہیں اور جگہ منتقل کردے اسے جحفہ نامی گاؤں میں بھیج دے ۔
تشریح :
یہ دعا آپ کی قبول ہوئی مدینہ کی ہوا نہایت عمدہ ہوگئی اور مقام جحفہ اپنی آب وہوا کی خرابی میں اب تک مشہور ہے۔ وطن کی محبت انسان کے لیے ایک فطری چیز ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اشعار سے اسے سمجھا جا سکتا ہے آپ نے مدینہ سے بخار کے دفع ہونے کی دعا فرمائی یہی باب سے مطابقت ہے۔ شامہ اور طفیل مکہ کی دو پہاڑیاں ہیں۔ اذخر جلیل مکہ کے جنگلوں میں پیدا ہونے والی دو بوٹیاں ہیں اور جحفہ ایک پانی کے گھاٹ کا نام تھا۔ جہاں عرب اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے اور وہاں تفریحات کرتے تھے۔ وطن کی محبت انسان کا فطری جذبہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام کی بات مشہور ہے کہ اکثر اپنے وطن کنعان کو یاد فرمایا کرتے تھے ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے وطن کو بھی امن وعافیت کا گہوارہ بنادے آمین۔
یہ دعا آپ کی قبول ہوئی مدینہ کی ہوا نہایت عمدہ ہوگئی اور مقام جحفہ اپنی آب وہوا کی خرابی میں اب تک مشہور ہے۔ وطن کی محبت انسان کے لیے ایک فطری چیز ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اشعار سے اسے سمجھا جا سکتا ہے آپ نے مدینہ سے بخار کے دفع ہونے کی دعا فرمائی یہی باب سے مطابقت ہے۔ شامہ اور طفیل مکہ کی دو پہاڑیاں ہیں۔ اذخر جلیل مکہ کے جنگلوں میں پیدا ہونے والی دو بوٹیاں ہیں اور جحفہ ایک پانی کے گھاٹ کا نام تھا۔ جہاں عرب اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے اور وہاں تفریحات کرتے تھے۔ وطن کی محبت انسان کا فطری جذبہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام کی بات مشہور ہے کہ اکثر اپنے وطن کنعان کو یاد فرمایا کرتے تھے ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے وطن کو بھی امن وعافیت کا گہوارہ بنادے آمین۔