‌صحيح البخاري - حدیث 565

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ وَقْتِ العِشَاءِ إِذَا اجْتَمَعَ النَّاسُ أَوْ تَأَخَّرُوا صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو هُوَ ابْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَةِ، وَالعَصْرَ وَالشَّمْسُ [ص:118] حَيَّةٌ، وَالمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ، وَالعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ، وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 565

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: نماز عشاء کا وقت جب لوگ جمع ہو جائیں ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ حجاج نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ محمد بن عمرو سے جو حسن بن علی بن ابی طالب کے بیٹے ہیں، فرمایا کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ آپ نماز ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے۔ اور جب نماز عصر پڑھتے تو سورج صاف روشن ہوتا۔ مغرب کی نماز واجب ہوتے ہی ادا فرماتے، اور “ عشاء ” میں اگر لوگ جلدی جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر آنے والوں کی تعداد کم ہوتی تو دیر کرتے۔ اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔
تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ باب اوران میں آمدہ احادیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ عشاءکی نمازاگرجلدی ادا کی جائے تواسے عشاءہی کہیں گے اور اگر دیر سے ادا کی جائے تواسے عتمہ کہیں گے، گویا ان لوگوں نے دونوں روایتوں میںتطبیق دی ہے۔ اور ان پر رد اس طرح ہوا کہ ان احادیث میں دونوں حالتوں میں اسے عشاء ہی کہا گیا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ باب اوران میں آمدہ احادیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ عشاءکی نمازاگرجلدی ادا کی جائے تواسے عشاءہی کہیں گے اور اگر دیر سے ادا کی جائے تواسے عتمہ کہیں گے، گویا ان لوگوں نے دونوں روایتوں میںتطبیق دی ہے۔ اور ان پر رد اس طرح ہوا کہ ان احادیث میں دونوں حالتوں میں اسے عشاء ہی کہا گیا۔