كِتَابُ الأَشْرِبَةِ بَابُ مَنْ شَرِبَ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ صحيح حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عُمَيْرٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ الفَضْلِ بِنْتِ الحَارِثِ: «أَنَّهَا أَرْسَلَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحِ لَبَنٍ، وَهُوَ وَاقِفٌ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، فَأَخَذَ بِيَدِهِ فَشَرِبَهُ» زَادَ مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ: «عَلَى بَعِيرِهِ»
کتاب: مشروبات کے بیان میں
باب: جس نے اونٹ پر بیٹھ کر ( پانی یا دودھ ) پیا
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابو النضر نے خبر دی ، انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عمیر نے اورانہیں ام فضل بنت حارث نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا میدان عرفات میں ۔ وہ عرفہ کے دن کی شام کا وقت تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنی سواری پر ) سوار تھے ، آپ نے اپنے ہاتھ میں وہ پیالہ لیا اور اسے پی لیا ۔ مالک نے ابو النضر سے اپنے اونٹ پر کے الفاظ زیادہ کئے ۔
تشریح :
بعضوں نے حضرت امام بخاری پر یہاں یہ اعتراض کیا اونٹ پر تو آدمی بیٹھا ہوتا ہے نہ کہ کھڑا ، پھر اس باب کے لانے سے یہ کہاں نکلا کہ پانی کھڑے کھڑے پینا درست ہے مگر یہ اعتراض لغو ہے۔ حضرت امام بخاری کی غرض اس باب کے لانے سے یہ ہے کہ اونٹ پر سوار رہ کر کھانا پینا درست ہے اور یہ ایک الگ مطلب ہے اور یہ باب اس لیے لائے کہ اونٹ پر سوار ہونا کھڑے رہنے سے بھی زیادہ ہے کہ شاید کوئی خیال کرے کہ سوار رہ کر بھی کھانا پینا مکروہ ہوگا۔
بعضوں نے حضرت امام بخاری پر یہاں یہ اعتراض کیا اونٹ پر تو آدمی بیٹھا ہوتا ہے نہ کہ کھڑا ، پھر اس باب کے لانے سے یہ کہاں نکلا کہ پانی کھڑے کھڑے پینا درست ہے مگر یہ اعتراض لغو ہے۔ حضرت امام بخاری کی غرض اس باب کے لانے سے یہ ہے کہ اونٹ پر سوار رہ کر کھانا پینا درست ہے اور یہ ایک الگ مطلب ہے اور یہ باب اس لیے لائے کہ اونٹ پر سوار ہونا کھڑے رہنے سے بھی زیادہ ہے کہ شاید کوئی خیال کرے کہ سوار رہ کر بھی کھانا پینا مکروہ ہوگا۔