‌صحيح البخاري - حدیث 557

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ الغُرُوبِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ العَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الإِنْجِيلِ الإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا إِلَى صَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِينَا القُرْآنَ، فَعَمِلْنَا إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَأُعْطِينَا قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ: أَهْلُ الكِتَابَيْنِ: أَيْ رَبَّنَا، أَعْطَيْتَ هَؤُلاَءِ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، وَأَعْطَيْتَنَا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، وَنَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا؟ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 557

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہون نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توراۃ والوں کو توراۃ دی گئی۔ تو انھوں نے اس پر ( صبح سے ) عمل کیا۔ آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے، کام پورا نہ کر سکے، ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی، انھوں نے ( آدھے دن سے ) عصر تک اس پر عمل کیا، اور وہ بھی عاجز آ گئے۔ ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا۔ پھر ( عصر کے وقت ) ہم کو قرآن ملا۔ ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا ( اور کام پورا کر دیا ) ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا۔ اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! انھیں تو آپ نے دو دو قیراط دئیے اور ہمیں صرف ایک ایک قیراط۔ حالانکہ عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا، تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا۔ انھوں نے عرض کی کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ ( زیادہ اجر دینا ) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں۔
تشریح : تشریح :اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دومثل سائے سے شروع ہوتاہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتاہے کہ حدیث میں عصرکی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیاہے جو دوپہردن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگرایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہوگا وہ دوپہر سے تابفراغت از نماز عصر کم ہوگا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہوگی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتاہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجریاعصر کی ایک رکعت پالے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتاہے۔ ( اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ) کام توکیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ و جہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اورکام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑکر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔ یہ مثالیں یہودونصاریٰ اورمسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کومانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعدانجیل مقدس اورقرآن شریف سے منحرف ہوگئے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے نہ مانا۔ اورنصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ کو مانا لیکن قرآن شریف اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہوگئے توان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہوگئی۔ آخرت میں جو اجرملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اورانھوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اورسب نیبوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آگیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاءواللہ ذوالفضل العظیم ( از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ ) تشریح :اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دومثل سائے سے شروع ہوتاہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتاہے کہ حدیث میں عصرکی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیاہے جو دوپہردن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگرایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہوگا وہ دوپہر سے تابفراغت از نماز عصر کم ہوگا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہوگی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتاہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجریاعصر کی ایک رکعت پالے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتاہے۔ ( اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ) کام توکیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ و جہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اورکام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑکر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔ یہ مثالیں یہودونصاریٰ اورمسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کومانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعدانجیل مقدس اورقرآن شریف سے منحرف ہوگئے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے نہ مانا۔ اورنصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ کو مانا لیکن قرآن شریف اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہوگئے توان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہوگئی۔ آخرت میں جو اجرملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اورانھوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اورسب نیبوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آگیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاءواللہ ذوالفضل العظیم ( از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ )