‌صحيح البخاري - حدیث 556

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ الغُرُوبِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلاَةِ العَصْرِ، قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَلْيُتِمَّ صَلاَتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجْدَةً مِنْ صَلاَةِ الصُّبْحِ، قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَلْيُتِمَّ صَلاَتَهُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 556

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے ( اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضا ) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے۔
تشریح : اس حدیث کے ذیل حضرت العلام مولانا نواب وحیدالزماں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تشریحی الفاظ یہ ہیں: اس پر تمام ائمہ اورعلماءکا اجماع ہے۔ مگر حنفیوں نے آدھی حدیث کولیاہے اورآدھی کو چھوڑدیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصرکی نماز توصحیح ہوجائے گی لیکن فجر کی صحیح نہ ہوگی، ان کا قیاس حدیث کے برخلاف ہے اورخود ان ہی کے امام کی وصیت کے مطابق چھوڑدینے کے لائق ہے۔ ” بیہقی میں مزید وضاحت یوں موجود ہے: من ادرک رکعۃ من الصبح فلیصل الیہا اخری جو فجر کی ایک رکعت پالے اورسورج نکل آئے تو وہ دوسری رکعت بھی اس کے ساتھ ملالے اس کی نماز فجر صحیح ہوگی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویوخذ من ہذا الرد علی الطحاوی حیث خص الادراک باحتلام الصبی وطہرالحائض واسلام الکافر ونحوہا وارادبذلک نصرۃ مذہبہ فی ان من ادرک من الصبح رکعۃ تفسد صلوٰتہ لانہ لایکملہا الافی وقت الکراہۃ انتہی۔ والحدیث یدل علی ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃالصبح قبل طلوع الشمس فقد ادرک صلوٰۃ الصبح ولاتبطل بطلوعہا کما ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃ العصر قبل غروب الشمس فقدادرک صلوٰۃ العصر ولاتبطل بغروبہا وبہ قال مالک والشافعی واحمد واسحاق و ہوالحق۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:398 ) اس حدیث مذکور سے امام طحاوی کا رد ہوتاہے جنھوں نے حدیث مذکورہ کو اس لڑکے کے ساتھ خاص کیاہے جو ابھی ابھی بالغ ہوا یا کوئی عورت جو ابھی ابھی حیض سے پاک ہوئی یا کوئی کافر جو ابھی ابھی اسلام لایا اور ان کوفجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے مل گئی توگویا یہ حدیث ان کے ساتھ خاص ہے۔ اس تاویل سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اپنے مذہب کی نصرت کرنا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس نے صبح کی ایک رکعت پائی اور پھر سورج طلوع ہوگیا، تواس کی نماز باطل ہوگئی اس لیے کہ وہ اس کی تکمیل مکروہ وقت میں کررہاہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ عام طور پر ہر شخص مراد ہے جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پالی اس کی ساری نماز کا ثواب ملے گا اوروہ نماز طلوع شمس سے باطل نہ ہوگی جیسا کہ کسی نے عصر کی ایک رکعت سورج چھپنے سے قبل پالی تواس نے عصرکی نماز پالی اور وہ غروب شمس سے باطل نہ ہوگی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمدواسحاق رحمۃ اللہ علیہما سب کا یہی مذہب ہے اوریہی حق ہے۔ اس حدیث کے ذیل حضرت العلام مولانا نواب وحیدالزماں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تشریحی الفاظ یہ ہیں: اس پر تمام ائمہ اورعلماءکا اجماع ہے۔ مگر حنفیوں نے آدھی حدیث کولیاہے اورآدھی کو چھوڑدیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصرکی نماز توصحیح ہوجائے گی لیکن فجر کی صحیح نہ ہوگی، ان کا قیاس حدیث کے برخلاف ہے اورخود ان ہی کے امام کی وصیت کے مطابق چھوڑدینے کے لائق ہے۔ ” بیہقی میں مزید وضاحت یوں موجود ہے: من ادرک رکعۃ من الصبح فلیصل الیہا اخری جو فجر کی ایک رکعت پالے اورسورج نکل آئے تو وہ دوسری رکعت بھی اس کے ساتھ ملالے اس کی نماز فجر صحیح ہوگی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویوخذ من ہذا الرد علی الطحاوی حیث خص الادراک باحتلام الصبی وطہرالحائض واسلام الکافر ونحوہا وارادبذلک نصرۃ مذہبہ فی ان من ادرک من الصبح رکعۃ تفسد صلوٰتہ لانہ لایکملہا الافی وقت الکراہۃ انتہی۔ والحدیث یدل علی ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃالصبح قبل طلوع الشمس فقد ادرک صلوٰۃ الصبح ولاتبطل بطلوعہا کما ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃ العصر قبل غروب الشمس فقدادرک صلوٰۃ العصر ولاتبطل بغروبہا وبہ قال مالک والشافعی واحمد واسحاق و ہوالحق۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:398 ) اس حدیث مذکور سے امام طحاوی کا رد ہوتاہے جنھوں نے حدیث مذکورہ کو اس لڑکے کے ساتھ خاص کیاہے جو ابھی ابھی بالغ ہوا یا کوئی عورت جو ابھی ابھی حیض سے پاک ہوئی یا کوئی کافر جو ابھی ابھی اسلام لایا اور ان کوفجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے مل گئی توگویا یہ حدیث ان کے ساتھ خاص ہے۔ اس تاویل سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اپنے مذہب کی نصرت کرنا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس نے صبح کی ایک رکعت پائی اور پھر سورج طلوع ہوگیا، تواس کی نماز باطل ہوگئی اس لیے کہ وہ اس کی تکمیل مکروہ وقت میں کررہاہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ عام طور پر ہر شخص مراد ہے جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پالی اس کی ساری نماز کا ثواب ملے گا اوروہ نماز طلوع شمس سے باطل نہ ہوگی جیسا کہ کسی نے عصر کی ایک رکعت سورج چھپنے سے قبل پالی تواس نے عصرکی نماز پالی اور وہ غروب شمس سے باطل نہ ہوگی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمدواسحاق رحمۃ اللہ علیہما سب کا یہی مذہب ہے اوریہی حق ہے۔