كِتَابُ الأَضَاحِيِّ بَابُ سُنَّةِ الأُضْحِيَّةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زُبَيْدٍ الإِيَامِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ البَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ» فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ، وَقَدْ ذَبَحَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً، فَقَالَ: «اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ» قَالَ مُطَرِّفٌ: عَنْ عَامِرٍ، عَنِ البَرَاءِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ»
کتاب: قربانی کے مسائل کا بیان
باب: قربانی کرنا سنت ہے
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے زبید ایامی نے ، ان سے شعبی نے اور ان سے حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج ( عیدالاضحی کے دن ) کی ابتدا ہم نماز ( عید ) سے کریں گے پھر واپس آکر قربانی کریں گے جو اس طرح کرے گا وہ ہماری سنت کے مطابق کرے گا لیکن جو شخص ( نماز عید سے ) پہلے ذبح کرے گا تو اس کی حیثیت صرف گوشت کی ہو گی جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کر لیا ہے قربانی وہ قطعاًبھی نہیں ۔ اس پر ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے ( نماز عید سے پہلے ہی ) ذبح کر لیا تھا اور عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بکرا ہے ( کیا اس کی دوبارہ قربانی ا ب نماز کے بعد کرلوں ؟ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی قربانی کرلو لیکن تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہیں ہوگا ۔ مطرف نے عامر سے بیان کیا اور ان سے براءبن عازب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا ۔
تشریح :
سنت سے اس حدیث میں طریق مراد ہے۔ حافظ نے کہا کہ امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ لفظ سنت یہاں طریق کے معنی میں ہے مگر طریق واجب اور سنت دونوں کو شامل ہے۔ جب وجوب کی کوئی دلیل نہیں تو معلوم ہوا کہ طریق سے سنت اصطلاحی مراد ہے، وھوالمطلوب۔
سنت سے اس حدیث میں طریق مراد ہے۔ حافظ نے کہا کہ امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ لفظ سنت یہاں طریق کے معنی میں ہے مگر طریق واجب اور سنت دونوں کو شامل ہے۔ جب وجوب کی کوئی دلیل نہیں تو معلوم ہوا کہ طریق سے سنت اصطلاحی مراد ہے، وھوالمطلوب۔