‌صحيح البخاري - حدیث 5534

كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ بَابُ المِسْكِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5534

کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں باب: مشک کا استعمال جائز ہے ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ، ان سے برید بن عبداللہ نے ، ان سے بردہ نے اور ان سے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ( جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو ) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خو شبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے ( بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک نا گوار بد بو دار دھواں پہنچے گا ۔
تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بھی مشک کا پاک اور بہتر ہونا ثابت فرمایا ہے اور اسے اچھے اور صالح دوست سے تشبیہ دی ہے بے شک صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع ترا طالع کند حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مسلمان ہو ئے تھے۔ یہ حافظ قرآن اور سنت رسول کے حامل تھے۔ کلام الٰہی خاص انداز اور لحن داؤد علیہ السلام سے پڑھا کرتے تھے۔ تمام سامعین محو رہتے تھے۔ ان کی تلاوت پر خوش ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بصرہ کا حاکم بنایا۔ سنہ52ھ میں وفات پائی رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بھی مشک کا پاک اور بہتر ہونا ثابت فرمایا ہے اور اسے اچھے اور صالح دوست سے تشبیہ دی ہے بے شک صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع ترا طالع کند حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مسلمان ہو ئے تھے۔ یہ حافظ قرآن اور سنت رسول کے حامل تھے۔ کلام الٰہی خاص انداز اور لحن داؤد علیہ السلام سے پڑھا کرتے تھے۔ تمام سامعین محو رہتے تھے۔ ان کی تلاوت پر خوش ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بصرہ کا حاکم بنایا۔ سنہ52ھ میں وفات پائی رضی اللہ عنہ وارضاہ۔