كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ بَابُ لَحْمِ الدَّجَاجِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ القَاسِمِ، عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ هَذَا الحَيِّ مِنْ جَرْمٍ إِخَاءٌ، فَأُتِيَ بِطَعَامٍ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، وَفِي القَوْمِ رَجُلٌ جَالِسٌ أَحْمَرُ، فَلَمْ يَدْنُ مِنْ طَعَامِهِ، قَالَ: ادْنُ، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ أَكَلَ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لاَ آكُلَهُ، فَقَالَ: ادْنُ أُخْبِرْكَ، أَوْ أُحَدِّثْكَ: إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ، فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَحَلَفَ أَنْ لاَ يَحْمِلَنَا، قَالَ: «مَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ» ثُمَّ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبٍ مِنْ إِبِلٍ، فَقَالَ: «أَيْنَ الأَشْعَرِيُّونَ؟ أَيْنَ الأَشْعَرِيُّونَ» قَالَ: فَأَعْطَانَا خَمْسَ ذَوْدٍ غُرَّ الذُّرَى، فَلَبِثْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: نَسِيَ [ص:95] رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ لاَ نُفْلِحُ أَبَدًا، فَرَجَعْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا اسْتَحْمَلْنَاكَ، فَحَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا، فَظَنَنَّا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ، فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ هُوَ حَمَلَكُمْ، إِنِّي وَاللَّهِ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا»
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
باب: مرغی کھانے کا بیان
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ایوب بن ابی تمیمہ نے بیان کیا ، ان سے قاسم نے ، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیاکہ ہم سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ہم میں اور اس قبیلہ جرم مےں بھائی چارہ تھا پھر کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا ، حاضرین میں ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہو ا تھا لیکن وہ کھانے میں شریک نہیں ہوا ، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ تم بھی شریک ہوجاؤ ۔ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تھا اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے اور میں نے قسم کھالی ہے کہ اب اس کا گوشت نہیں کھا ؤں گا ۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شریک ہو جاؤ میں تمہیں خبر دیتا ہوں یاانہوں نے کہا کہ میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر حاضر ہوا ، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ خفا تھے آپ صدقہ کے اونٹ تقسیم فرما رہے تھے ، اسی وقت ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ کا سوال کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ آپ ہمیں سواری کے لیے اونٹ نہیں دیں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ اشعری کہا ں ہیں ، اشعری کہاں ہیں ؟ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ سفید کوہان والے اونٹ دے دیئے ۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے لیکن پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہیں اور اگر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم کے بارے میں غافل رکھا تو ہم کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے ۔ چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم نے آپ سے سواری کے اونٹ ایک مرتبہ مانگے تھے تو آ پ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم کھالی تھی ہمارے خیال میں آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلا شبہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے تمہیں سواری کے لیے جانور عطا فرمایا ۔ اللہ کی قسم اگر خدا نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں کوئی قسم کھالوں اور پھر بعد میں مجھ پر واضح ہو جائے کہ اس کے سوا دوسری چیز اس سے بہتر ہے اور پھر وہی میں نہ کروں جو بہتر ہے ، میں قسم توڑ دوں گا اور وہی کروں گا جو بہتر ہوگا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردوں گا ۔
تشریح :
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا دلی مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر مرغی کھانے میں شریک ہوجاؤ۔ مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو وہ اگر گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاءبھی بکثرت کھاتی ہے پس اس کی حلت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا دلی مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر مرغی کھانے میں شریک ہوجاؤ۔ مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو وہ اگر گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاءبھی بکثرت کھاتی ہے پس اس کی حلت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔