‌صحيح البخاري - حدیث 551

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي العَصْرَ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ مِنَّا إِلَى قُبَاءٍ، فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 551

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: نماز عصر کے وقت کا بیان ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) اس کے بعد کوئی شخص قبا جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔
تشریح : عوالی دیہات کو کہا گیاہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہوجاتاہے۔ دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جاسکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہوجاتاہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ مگر نظرانصاف درکار ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وہودلیل لمذہب مالک والشافعی واحمد والجمہور من العترۃ وغیرہم القائلین بان اول وقت العصر اذا صار ظل کل شیئی مثلہ وفیہ رد لمذہب ابی حنیفۃ فانہ قال ان اول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشئی مثلیہ۔ ( نیل ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔ عوالی دیہات کو کہا گیاہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہوجاتاہے۔ دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جاسکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہوجاتاہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ مگر نظرانصاف درکار ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وہودلیل لمذہب مالک والشافعی واحمد والجمہور من العترۃ وغیرہم القائلین بان اول وقت العصر اذا صار ظل کل شیئی مثلہ وفیہ رد لمذہب ابی حنیفۃ فانہ قال ان اول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشئی مثلیہ۔ ( نیل ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔