‌صحيح البخاري - حدیث 5479

كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ بَابُ الخَذْفِ وَالبُنْدُقَةِ صحيح حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ - وَاللَّفْظُ لِيَزِيدَ - عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ: أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: لاَ تَخْذِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الخَذْفِ، أَوْ كَانَ يَكْرَهُ الخَذْفَ وَقَالَ: «إِنَّهُ [ص:87] لاَ يُصَادُ بِهِ صَيْدٌ وَلاَ يُنْكَى بِهِ عَدُوٌّ، وَلَكِنَّهَا قَدْ تَكْسِرُ السِّنَّ، وَتَفْقَأُ العَيْنَ» ثُمَّ رَآهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الخَذْفِ أَوْ كَرِهَ الخَذْفَ، وَأَنْتَ تَخْذِفُ لاَ أُكَلِّمُكَ كَذَا وَكَذَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5479

کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں باب: انگلی سے چھوٹے چھوٹے سنگ ریزے اور غلے مارنا ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا ، کہا ہم سے وکیع اور یزید بن ہارون نے بیان کیا اور الفاظ حدیث یزید کے ہیں ، ان سے کہمس بن حسن نے ، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے ، حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کنکری پھینکتے دیکھا تو فرمایا کہ کنکری نہ پھینکو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے یا ( انہوں نے بیان کیا کہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کنکری پھینکنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور کہا کہ اس سے نہ شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے البتہ یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے ۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اس شخص کو لنکریاں پھینکتے دیکھا تو کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں کہ آپ نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا یا کنکری پھینکنے کو نا پسند کیا اور تم اب بھی پھینکے جا رہے ہو ، میں تم سے اتنے دنوں تک کلام نہیں کروں گا ۔
تشریح : اس حدیث سے ظاہر ہو گیا کہ حدیث پر چلنا اور حدیث کے سامنے اپنی رائے قیاس کو چھوڑنا ایمان کا تقاضا ہے اور یہی صراط مستقیم ہے اللہ اسی پر قائم ودائم رکھے اور اسی راہ حدیث پر موت نصیب کرے ۔ آمین۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وفی الحدیث جواز ھجر ان من خالف السنۃ وترک کلامہ ولا یدخل ذالک فی النھی عن الھجر فوق ثلاث فانہ یتعلق بمن ھجر بحظ نفسہ یعنی اس سے ان لوگوں سے ترک سلام وکلام جائز ثابت ہوا جو سنت کی مخالفت کریں اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں تین دن سے زیادہ ترک کلام کی مخالفت آئی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے نفس کے لیے ہے اور یہ محبت سنت نبوی فداہ روحی کے لیے سچ ہے یہی وہ صراط مستقیم ہے جس سے خدا ملے گا جیسا کہ علامہ طحطاوی نے مفصل بیان فرمایا ہے۔ فان قلت ما وقوفک علیٰ انک صراط مستقیم وکل واحد من ھذہ الفرق یدعی انہ علیہ قلت لیس ذالک للا دعاءوالتثبت باستعمالھم الوھم القاصر والقول الزاعم بل بالنقل عن جھابذۃ ھذہ الصنعۃ وعلماءاھل الحدیث الذین جمعوا صحاح الحدیث فی امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واحوالہ وافعالہ وحرکاتہ وسکناتہ واحوال الصحابۃ والمھاجرین والانصار الذین اتبعوھم باحسان مثل الامام البخاری ومسلم وغیرہما من الثقات المشھورین الذین اتفق اھل الشرق والغرب علیٰ صحۃ ما اوردوہ فی کتبھم من امور النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم ثم بعد النقل ینظر الی الذی تمسک بھدیھم وافتفٰی اثرھم واھتدی بسیرھم فی الاصول والفروع فیحکم بانہ من الذین ھم ھم وھذا ھو الفارق بین الحق والباطل الممیز بین من ھو علیٰ الصراط المستقیم وبین من ھو علی السبیل الذی یمینہ وشمالہ ( طحطاوی حاشیہ در مختار مطبوعہ بولاق قاھرۃ، جلد : 4، کتاب الذبائح ، ص : 135 ) اگر تو کہے کہ تجھے اپنا صراط مستقیم پر ہونا کیسے معلوم ہو حالانکہ ان تمام فرقوں میں ہر ایک یہی دعویٰ کرتا ہے تو میں جواب دوںگا کہ یہ صرف دعویٰ کرلینے اور اپنے وہم وگمان کو سند بنا لینے سے ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اس پر وہ ہے جو علم منقول حاصل کرے اس فن کے ماہر علمائے اہلحدیث سے جن بزرگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث جمع کیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امور اور احوال اور حرکات وسکنات میں مروی ہیں اور جن بزرگوں نے صحابہ کرام انصار ومہاجرین کے حالات جمع کئے جنہوں نے ان کی احسان کے ساتھ پیروی کی جیسے حضرت امام بخاری وحضرت امام مسلم وغیرہ ہیں جو ثقہ لوگ تھے اور مشہور تھے، جن بزرگوں کی وارد کی ہوئی مرفوع و موقوف احادیث کی صحت پر کل علماءمشرق ومغرب متفق ہیں۔ اس نقل کے بعد دیکھا جائے گا کہ ان محدثین کرام کے طریقے کو مضبوط تھامنے والا اورا ن کی پوری پوری اتباع کرنے والا اور تمام کلی وجزئی چھوٹے بڑے کاموں میں ان کی روش پر چلنے والا کون ہے۔ اب جو فرقہ اس طریقہ پر ہوگا ( یعنی احادیث رسول پر بطریق صحابہ بلا قید مذہب عمل کرنے والا ) اس کی نسبت حکم کیا جائے گا کہ یہی جماعت وہ ہے جو صراط مستقیم پر ہے بس یہی وہ اصول ہے جو حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اوریہی وہ کسوٹی ہے جو صراط مستقیم پر ہیں ان میں اوران میں جو اس کے دائیں بائیں ہیں، تمیز کر دیتی ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ہو گیا کہ حدیث پر چلنا اور حدیث کے سامنے اپنی رائے قیاس کو چھوڑنا ایمان کا تقاضا ہے اور یہی صراط مستقیم ہے اللہ اسی پر قائم ودائم رکھے اور اسی راہ حدیث پر موت نصیب کرے ۔ آمین۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وفی الحدیث جواز ھجر ان من خالف السنۃ وترک کلامہ ولا یدخل ذالک فی النھی عن الھجر فوق ثلاث فانہ یتعلق بمن ھجر بحظ نفسہ یعنی اس سے ان لوگوں سے ترک سلام وکلام جائز ثابت ہوا جو سنت کی مخالفت کریں اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں تین دن سے زیادہ ترک کلام کی مخالفت آئی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے نفس کے لیے ہے اور یہ محبت سنت نبوی فداہ روحی کے لیے سچ ہے یہی وہ صراط مستقیم ہے جس سے خدا ملے گا جیسا کہ علامہ طحطاوی نے مفصل بیان فرمایا ہے۔ فان قلت ما وقوفک علیٰ انک صراط مستقیم وکل واحد من ھذہ الفرق یدعی انہ علیہ قلت لیس ذالک للا دعاءوالتثبت باستعمالھم الوھم القاصر والقول الزاعم بل بالنقل عن جھابذۃ ھذہ الصنعۃ وعلماءاھل الحدیث الذین جمعوا صحاح الحدیث فی امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واحوالہ وافعالہ وحرکاتہ وسکناتہ واحوال الصحابۃ والمھاجرین والانصار الذین اتبعوھم باحسان مثل الامام البخاری ومسلم وغیرہما من الثقات المشھورین الذین اتفق اھل الشرق والغرب علیٰ صحۃ ما اوردوہ فی کتبھم من امور النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم ثم بعد النقل ینظر الی الذی تمسک بھدیھم وافتفٰی اثرھم واھتدی بسیرھم فی الاصول والفروع فیحکم بانہ من الذین ھم ھم وھذا ھو الفارق بین الحق والباطل الممیز بین من ھو علیٰ الصراط المستقیم وبین من ھو علی السبیل الذی یمینہ وشمالہ ( طحطاوی حاشیہ در مختار مطبوعہ بولاق قاھرۃ، جلد : 4، کتاب الذبائح ، ص : 135 ) اگر تو کہے کہ تجھے اپنا صراط مستقیم پر ہونا کیسے معلوم ہو حالانکہ ان تمام فرقوں میں ہر ایک یہی دعویٰ کرتا ہے تو میں جواب دوںگا کہ یہ صرف دعویٰ کرلینے اور اپنے وہم وگمان کو سند بنا لینے سے ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اس پر وہ ہے جو علم منقول حاصل کرے اس فن کے ماہر علمائے اہلحدیث سے جن بزرگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث جمع کیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امور اور احوال اور حرکات وسکنات میں مروی ہیں اور جن بزرگوں نے صحابہ کرام انصار ومہاجرین کے حالات جمع کئے جنہوں نے ان کی احسان کے ساتھ پیروی کی جیسے حضرت امام بخاری وحضرت امام مسلم وغیرہ ہیں جو ثقہ لوگ تھے اور مشہور تھے، جن بزرگوں کی وارد کی ہوئی مرفوع و موقوف احادیث کی صحت پر کل علماءمشرق ومغرب متفق ہیں۔ اس نقل کے بعد دیکھا جائے گا کہ ان محدثین کرام کے طریقے کو مضبوط تھامنے والا اورا ن کی پوری پوری اتباع کرنے والا اور تمام کلی وجزئی چھوٹے بڑے کاموں میں ان کی روش پر چلنے والا کون ہے۔ اب جو فرقہ اس طریقہ پر ہوگا ( یعنی احادیث رسول پر بطریق صحابہ بلا قید مذہب عمل کرنے والا ) اس کی نسبت حکم کیا جائے گا کہ یہی جماعت وہ ہے جو صراط مستقیم پر ہے بس یہی وہ اصول ہے جو حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اوریہی وہ کسوٹی ہے جو صراط مستقیم پر ہیں ان میں اوران میں جو اس کے دائیں بائیں ہیں، تمیز کر دیتی ہے۔