كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ الرَّجُلِ يُدْعَى إِلَى طَعَامٍ فَيَقُولُ: وَهَذَا مَعِي صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يُكْنَى أَبَا شُعَيْبٍ، وَكَانَ لَهُ غُلاَمٌ لَحَّامٌ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي أَصْحَابِهِ، فَعَرَفَ الجُوعَ فِي وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ إِلَى غُلاَمِهِ اللَّحَّامِ، فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا يَكْفِي خَمْسَةً، لَعَلِّي أَدْعُو النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَصَنَعَ لَهُ طُعَيِّمًا، ثُمَّ أَتَاهُ فَدَعَاهُ، فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا شُعَيْبٍ، إِنَّ رَجُلًا [ص:83] تَبِعَنَا، فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَهُ، وَإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ» قَالَ: لاَ، بَلْ أَذِنْتُ لَهُ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
باب: کسی شخص کی کھانے کی دعوت ہو
ہم سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو اسامہ نے ، ان سے اعمش نے ، ان سے شقیق نے ، اوران سے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے بیان کیا کہ جماعت انصار کے ایک صحابی ابو شعیب رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے ۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا ۔ وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے ۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک سے فاقہ کا اندازہ لگا لیا ۔ چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس گئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کردو ۔ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ دعوت دوں گا ۔ غلام نے کھانا تیار کردیا ۔ اس کے بعد ابو شعیب رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اورآپ کو کھانے کی دعوت دی ۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی چلنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو شعیب ! یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آگئے ہیں ، اگر تم چاہو تو انہیں بھی اجازت دے دو اوراگر چا ہو تو چھوڑدو ۔ انہوں نے عرض کیا نہیں بلکہ میں انہیں بھی اجازت دیتا ہوں ۔
تشریح :
مگر اس طرح ہر کسی کے گھر چلے جانا یا کسی کو اپنے ساتھ میں لے جانا جائز نہیں ہے ، کوئی مخلص دوست ہو تو بات الگ ہے۔
مگر اس طرح ہر کسی کے گھر چلے جانا یا کسی کو اپنے ساتھ میں لے جانا جائز نہیں ہے ، کوئی مخلص دوست ہو تو بات الگ ہے۔