كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ الرُّطَبِ وَالتَّمْرِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ بِالْمَدِينَةِ يَهُودِيٌّ، وَكَانَ يُسْلِفُنِي فِي تَمْرِي إِلَى الجِدَادِ، وَكَانَتْ لِجَابِرٍ الأَرْضُ الَّتِي بِطَرِيقِ رُومَةَ، فَجَلَسَتْ، فَخَلاَ عَامًا [ص:80]، فَجَاءَنِي اليَهُودِيُّ عِنْدَ الجَدَادِ وَلَمْ أَجُدَّ مِنْهَا شَيْئًا، فَجَعَلْتُ أَسْتَنْظِرُهُ إِلَى قَابِلٍ فَيَأْبَى، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «امْشُوا نَسْتَنْظِرْ لِجَابِرٍ مِنَ اليَهُودِيِّ» فَجَاءُونِي فِي نَخْلِي، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ اليَهُودِيَّ، فَيَقُولُ: أَبَا القَاسِمِ لاَ أُنْظِرُهُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَطَافَ فِي النَّخْلِ، ثُمَّ جَاءَهُ فَكَلَّمَهُ فَأَبَى، فَقُمْتُ فَجِئْتُ بِقَلِيلِ رُطَبٍ، فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ عَرِيشُكَ يَا جَابِرُ؟» فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «افْرُشْ لِي فِيهِ» فَفَرَشْتُهُ، فَدَخَلَ فَرَقَدَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، فَجِئْتُهُ بِقَبْضَةٍ أُخْرَى فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَ فَكَلَّمَ اليَهُودِيَّ فَأَبَى عَلَيْهِ، فَقَامَ فِي الرِّطَابِ فِي النَّخْلِ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ قَالَ: «يَا جَابِرُ جُدَّ وَاقْضِ» فَوَقَفَ فِي الجَدَادِ، فَجَدَدْتُ مِنْهَا مَا قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ، فَقَالَ: «أَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ» عُرُوشٌ: وَعَرِيشٌ: بِنَاءٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {مَعْرُوشَاتٍ} [الأنعام: 141]: مَا يُعَرَّشُ مِنَ الكُرُومِ وَغَيْرِ ذَلِكَ يُقَالُ: {عُرُوشُهَا} [البقرة: 259]: أَبْنِيَتُهَا
کتاب: کھانوں کے بیان میں
باب: تازہ کھجور اورخشک کھجور کے بیان میں
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے قرض اس شرط پردیا کرتا تھا کہ میری کھجور یں تیار ہونے کے وقت لے لے گا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک زمین بئر رومہ کے راستہ میں تھی ۔ ایک سال کھجور کے باغ میں پھل نہیں آئے ۔ پھل چنے جانے کاجب وقت آیا تو وہ یہودی میرے پاس آیا لیکن میں نے تو باغ سے کچھ بھی نہیں توڑا تھا ۔ اس لیے میں آئندہ سال کے لیے مہلت مانگنے لگالیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کیا ۔ اس کی خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو ، یہودی سے جابر رضی اللہ عنہ کے لیے ہم مہلت مانگیں گے ۔ چنانچہ یہ سب میرے باغ میں تشریف لائے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی سے گفتگو فرماتے رہے لیکن وہ یہی کہتا رہاکہ ابو القاسم میں مہلت نہیں دے سکتا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہو گئے اورکھجور کے باغ میں چاروں طرف پھر ے پھر تشریف لائے اوراس سے گفتگو کی لیکن اس نے اب بھی انکار کیا پھر میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تازہ کھجور لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تناول فرمایا پھر فرمایا جابر ! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے ؟ میںنے آپ کوبتایا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں میرے لیے کچھ فرش بچھا دو ۔ میں نے بچھا دیا تو آپ داخل ہو ئے اور آرام فرمایا پھر بیدار ہوئے تو میں ایک مٹھی اورکھجور لایا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے بھی تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو فرمائی ۔ اس نے اب بھی انکار کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا ، جابر ! جاؤاب پھل توڑ و اور قرض ادا کر دو ۔ آپ کھجوروں کے توڑ ے جانے کی جگہ کھڑے ہوگئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑلیں جن سے میںنے قرض اداکردیا اور اس میںسے کھجوریں بچ بھی گئی پھر میں وہاں سے نکلا اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکریہ خوشخبری سنائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہو ں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ حضرت ابو عبداللہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس حدیث میںجو عروش کالفظ ہے ۔ عروش ” اور عریش “ عمارت کی چھت کوکہتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( سورۃ انعام میں لفظ ) ” معروشات “ سے مراد انگور وغیرہ کی ٹٹیاں ہیں ۔ دوسری آیت ( سورۃ بقرہ ) ” خاویۃعلی عروشھا “ یعنی اپنی چھتوں پر گرے ہوئے ۔
تشریح :
حدیث میں خشک وتر کھجوروں کا ذکر ہے ۔ یہی وجہ مطابقت ہے آپ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قرض ادا ہو گیا ۔
حدیث میں خشک وتر کھجوروں کا ذکر ہے ۔ یہی وجہ مطابقت ہے آپ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قرض ادا ہو گیا ۔