‌صحيح البخاري - حدیث 543

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ تَأْخِيرِ الظُّهْرِ إِلَى العَصْرِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا: الظُّهْرَ وَالعَصْرَ وَالمَغْرِبَ وَالعِشَاءَ ، فَقَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، قَالَ: عَسَى

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 543

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: کبھی نماز ظہر عصر تک موخر کی ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے۔ انھوں نے جابر بن زید سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ ) اور آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں۔ ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) اور مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا۔
تشریح : ترمذی نے سعیدبن جبیرعن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے باب ماجاءفی الجمع بن الصلوٰتین یعنی دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔ اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اورمغرب اور عشاءکو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانھوں نے بتلایاکہ اراد ان لاتحرج امتہ تاکہ آپ کی امت مشقت میں نہ ڈالی جائے۔ حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحافظ فی الفتح وقد ذہب جماعۃ من الائمۃ الی اخذ بظاہر ہذالحدیث فجوزوا الجمع فی الحضر مطلقالکن بشرط ان لایتخذ ذلک عادۃ وممن قال بہ ابن سیرین وربیعۃ واشہب وابن المنذر والقفال الکبیر وحکاہ الخطابی عن جماعۃ من اہل الحدیث انتہیٰ۔ وذہب الجمہور الی ان الجمع بغیرعذر لایجوز۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1،ص: 166 ) یعنی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ائمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہرہی پر فتویٰ دیاہے۔ اور حضر میں بھی مطلقاً انھوں نے جائز کہاہے کہ دونمازوں کو جمع کرلیاجائے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنالیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال کبیر کا یہی فتویٰ ہے۔ اورخطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیاہے۔ مگرجمہور کہتے ہیں کہ بغیرعذر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اتنے اماموں کا اختلاف ہونے پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ جمع کرنا بالاجماع ناجائز ہے۔امام احمدبن حنبل اوراسحاق بن راہویہ نے مریض اورمسافر کے لیے ظہر اورعصر،اورمغرب اورعشاءمیں جمع کرنا مطلقاً جائز قراردیاہے۔ دلائل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے۔ ترمذی نے سعیدبن جبیرعن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے باب ماجاءفی الجمع بن الصلوٰتین یعنی دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔ اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اورمغرب اور عشاءکو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانھوں نے بتلایاکہ اراد ان لاتحرج امتہ تاکہ آپ کی امت مشقت میں نہ ڈالی جائے۔ حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحافظ فی الفتح وقد ذہب جماعۃ من الائمۃ الی اخذ بظاہر ہذالحدیث فجوزوا الجمع فی الحضر مطلقالکن بشرط ان لایتخذ ذلک عادۃ وممن قال بہ ابن سیرین وربیعۃ واشہب وابن المنذر والقفال الکبیر وحکاہ الخطابی عن جماعۃ من اہل الحدیث انتہیٰ۔ وذہب الجمہور الی ان الجمع بغیرعذر لایجوز۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1،ص: 166 ) یعنی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ائمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہرہی پر فتویٰ دیاہے۔ اور حضر میں بھی مطلقاً انھوں نے جائز کہاہے کہ دونمازوں کو جمع کرلیاجائے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنالیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال کبیر کا یہی فتویٰ ہے۔ اورخطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیاہے۔ مگرجمہور کہتے ہیں کہ بغیرعذر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اتنے اماموں کا اختلاف ہونے پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ جمع کرنا بالاجماع ناجائز ہے۔امام احمدبن حنبل اوراسحاق بن راہویہ نے مریض اورمسافر کے لیے ظہر اورعصر،اورمغرب اورعشاءمیں جمع کرنا مطلقاً جائز قراردیاہے۔ دلائل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے۔