‌صحيح البخاري - حدیث 5425

كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ الحَيْسِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، مَوْلَى المُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ: «التَمِسْ غُلاَمًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ يَخْدُمُنِي» فَخَرَجَ بِي أَبُو طَلْحَةَ يُرْدِفُنِي وَرَاءَهُ، فَكُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا نَزَلَ، فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ» فَلَمْ أَزَلْ أَخْدُمُهُ حَتَّى أَقْبَلْنَا مِنْ خَيْبَرَ، وَأَقْبَلَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ قَدْ حَازَهَا، فَكُنْتُ أَرَاهُ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ أَوْ بِكِسَاءٍ، ثُمَّ يُرْدِفُهَا وَرَاءَهُ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ رِجَالًا فَأَكَلُوا، وَكَانَ ذَلِكَ بِنَاءَهُ بِهَا ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا بَدَا لَهُ أُحُدٌ، قَالَ: «هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ» فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى المَدِينَةِ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ جَبَلَيْهَا، مِثْلَ مَا حَرَّمَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ [ص:77] وَصَاعِهِمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5425

کتاب: کھانوں کے بیان میں باب: حیس کا بیان ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے مطلب بن عبداللہ بن حنطب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے بچوں میں کوئی بچہ تلاش کرلاؤ جو میرے کام کردیا کرے ۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھاکر لائے ۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بھی آپ کہیں پڑاؤ کرتے خدمت کرتا ۔ میں سنا کرتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے ۔ ” اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے ، رنج سے ، عجز سے ، سستی سے ، بخل سے ، بزدلی سے ، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے ۔ “ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں اس وقت سے برابر آپ کی خدمت کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ ہم خیبر سے واپس ہوئے اور حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پسند فرمایا تھا ۔ میں دیکھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی سواری پر پیچھے کپڑے سے پردہ کیا اور پھر انہیں وہاں بٹھایا ۔ آخر جب مقام صہبا میں پہنچے تو آپ نے دستر خوان پر حیس ( کھجور ، پنیر اور گھی وغیرہ کا ملیدہ ) بنایا پھر مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو بلالایا ، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا ۔ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی دعوت ولیمہ تھی ۔ پھر آپ روانہ ہوئے اور جب احد دکھائی دیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اورہم اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد جب مدینہ نظر آیا تو فرمایا ” اے اللہ ! میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرمت والا علاقہ بناتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر بنایا تھا ۔ اے اللہ ! اس کے رہنے والوں کو برکت عطا فرما ۔ ان کے مد میں اوران کے صاع میں برکت فرما ۔ “
تشریح : اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی دعا قبول فرمائی اور مدینہ کو مثل مکہ کے برکتوں سے مالا مال فرما دیا۔ مدینہ کی آب وہوا معتدل ہے اور وہاں کا پانی شیریں اور وہاں کی غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔ مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے جو لوگ مدینہ کی حرمت کا انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اس بارے میں اہلحدیث ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مدینہ بھی مثل مکہ حرم ہے۔ زادھا اللہ شرفا وتعظیما۔ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب بن شعبہ سبط حضرت ہارون علیہ السلام سے ہیں۔ ان کی ماں کا نام برہ بنت سموال تھا۔ یہ جنگ خیبر میں سبایا میں تھیں۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے درخواست کی مگر لوگوں نے کہاکہ یہ بنوقریظہ اور بنونضیر کی سیدہ ہیں ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حرم میں داخل فرمالیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ ان کو آزاد کرکے آپ نے ان سے نکاح کر لیا۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔ آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہاکہ میں نے سنا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ مجھ کو حقیر سمجھتی ہیں اور اپنے لیے بطور فخر کہتی ہیں کہ میرانسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ تم مجھ سے کیوں کر بہتر ہو سکتی ہو۔ میرے باپ حضرت ہارون علیہ السلام اورمیرے چچا موسیٰ علیہ السلام اور میرے شوہر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی نے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سبت کی عزت کرتی ہیں اوریہود کوعطیات دیتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ا ن سے دریافت کر بھیجا ۔ انہوں نے کہاکہ جب سے اللہ نے ہم کو جمعہ عطا فرمایا ہے میں نے سبت کبھی پسند نہیں کیا۔ رہے یہود ان سے میری قرابت کے تعلقات ہیں میں ان کو ضرور دیتی رہتی ہوں۔ پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اس شکایت کی وجہ کیا ہے؟ لونڈی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان کو راہ اللہ آزاد کردیا ۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال رمضان سنہ 50 ھ میں ہوا۔ ان سے دس احادیث مردی ہیں۔ ان کے ماموں رفاعہ بن سموال صحابی تھے۔ ان کی حدیث مؤطا امام مالک میں ہے۔ ( رحمۃ للعالمین ، جلد: دومص: اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی دعا قبول فرمائی اور مدینہ کو مثل مکہ کے برکتوں سے مالا مال فرما دیا۔ مدینہ کی آب وہوا معتدل ہے اور وہاں کا پانی شیریں اور وہاں کی غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔ مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے جو لوگ مدینہ کی حرمت کا انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اس بارے میں اہلحدیث ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مدینہ بھی مثل مکہ حرم ہے۔ زادھا اللہ شرفا وتعظیما۔ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب بن شعبہ سبط حضرت ہارون علیہ السلام سے ہیں۔ ان کی ماں کا نام برہ بنت سموال تھا۔ یہ جنگ خیبر میں سبایا میں تھیں۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے درخواست کی مگر لوگوں نے کہاکہ یہ بنوقریظہ اور بنونضیر کی سیدہ ہیں ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حرم میں داخل فرمالیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ ان کو آزاد کرکے آپ نے ان سے نکاح کر لیا۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔ آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہاکہ میں نے سنا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ مجھ کو حقیر سمجھتی ہیں اور اپنے لیے بطور فخر کہتی ہیں کہ میرانسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ تم مجھ سے کیوں کر بہتر ہو سکتی ہو۔ میرے باپ حضرت ہارون علیہ السلام اورمیرے چچا موسیٰ علیہ السلام اور میرے شوہر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی نے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سبت کی عزت کرتی ہیں اوریہود کوعطیات دیتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ا ن سے دریافت کر بھیجا ۔ انہوں نے کہاکہ جب سے اللہ نے ہم کو جمعہ عطا فرمایا ہے میں نے سبت کبھی پسند نہیں کیا۔ رہے یہود ان سے میری قرابت کے تعلقات ہیں میں ان کو ضرور دیتی رہتی ہوں۔ پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اس شکایت کی وجہ کیا ہے؟ لونڈی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان کو راہ اللہ آزاد کردیا ۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال رمضان سنہ 50 ھ میں ہوا۔ ان سے دس احادیث مردی ہیں۔ ان کے ماموں رفاعہ بن سموال صحابی تھے۔ ان کی حدیث مؤطا امام مالک میں ہے۔ ( رحمۃ للعالمین ، جلد: دومص: