كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَصْحَابُهُ يَأْكُلُونَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبَّاسٍ الجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَيْنَ أَصْحَابِهِ تَمْرًا، فَأَعْطَى كُلَّ إِنْسَانٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَانِي سَبْعَ تَمَرَاتٍ إِحْدَاهُنَّ حَشَفَةٌ، فَلَمْ يَكُنْ فِيهِنَّ تَمْرَةٌ أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْهَا، شَدَّتْ فِي مَضَاغِي»
کتاب: کھانوں کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام ؓ کی خوارک کا بیان
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے عباس جریری نے بیان کیا ، ان سے ابو عثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کھجور تقسیم کی اور ہر شخص کو سات کھجوریں دیں ۔ مجھے بھی سات کھجوریں عنایت فرمائیں ۔ ان میں ایک خراب تھی ( اور سخت تھی ) لیکن مجھے وہی سب سے زیادہ اچھی معلوم ہوئی کیونکہ اس کا چبانا مجھ کو مشکل ہو گیا ۔
تشریح :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں پر ایسی تنگی تھی کہ سات کھجوریں ایک آدمی کو بطورراشن ملتی اور ان میں بھی بعض خراب اور سخت ہوتی مگر ہم سب اسی پر خوش رہا کرتے تھے۔ اب بھی مسلمانوں کا فرض ہے کہ تنگی وفراخی ہرحال میں خوش رہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں پر ایسی تنگی تھی کہ سات کھجوریں ایک آدمی کو بطورراشن ملتی اور ان میں بھی بعض خراب اور سخت ہوتی مگر ہم سب اسی پر خوش رہا کرتے تھے۔ اب بھی مسلمانوں کا فرض ہے کہ تنگی وفراخی ہرحال میں خوش رہیں۔