كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لاَ يَأْكُلُ حَتَّى يُسَمَّى لَهُ، فَيَعْلَمُ مَا هُوَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الوَلِيدِ، الَّذِي يُقَالُ لَهُ سَيْفُ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ، وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا، قَدْ قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدِّمُ يَدَهُ لِطَعَامٍ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ، فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الحُضُورِ: أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ، هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ» قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
باب: آنحضرت ﷺ کوئی کھانا ( جو پہچانا نہ جاتا ) نہ کھاتے جب تک لوگ بتلانہ دیتے کہ فلانا کھانا ہے اور آپ کو جب معلوم نہ ہوجاتا نہ کھاتے تھے
ہم سے محمد بن مقاتل ابو الحسن نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن یعلیٰ نے خبر دی ، کہا ہم کو یونس نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے ابو امامہ بن سہل بن حنیف انصاری نے خبر دی ، انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اورانہیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو سیف اللہ ( اللہ کی تلوار ) کے لقب سے مشہور ہیں ، خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے ۔ ام المؤمنین ان کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ ہیں ۔ ان کے یہاں بھنا ہوا ساہنہ موجود تھا جو ان کی بہن حفید ہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نجد سے لائی تھیں ۔ انہوں نے وہ بھنا ہوا ساہنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کے لیے اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں جب تک آپ کو اس کے متعلق بتانہ دیا جائے کہ یہ فلاں کھانا ہے لیکن اس دن آپ نے بھنے ہوئے ساہنے کے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ اتنے میں وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اس وقت آپ کے سامنے جو تم نے پیش کیا ہے وہ ساہنہ ہے ، یا رسول اللہ ! ( یہ سن کر ) آپ نے اپنا ہاتھ ساہنہ سے ہٹا لیا ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ ! کیا ساہنہ حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں لیکن یہ میرے ملک میں چونکہ نہیں پایا جاتا ، اس لیے طبیعت پسند نہیں کرتی ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھایا ۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ رہے تھے ۔
تشریح :
اس سے صاف ساہنہ کی حلت نکلتی ہے ۔ قسطلانی نے کہا ائمہ اربعہ اس کی حلت کے قائل ہیں اور طحاوی نے جو حنفی ہیں، اس کی حلت کو ترجیح دی ہے مگر متاخرین حنفیہ جیسے صاحب ہدایہ نے اس کو مکروہ لکھا ہے اور ابوداؤد کی حدیث سے دلیل لی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب کھانے سے منع فرمایا مگر یہ حدیث ضعیف ہے جو صحیح حدیث ہے مقابلہ پر قابل استدلال نہیں ہے ۔ بیان میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی والدہ لبابہ صغریٰ تھیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ لبابہ کبریٰ تھیں۔ یہ دونوں حارث کی بیٹی ہیں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔
اس سے صاف ساہنہ کی حلت نکلتی ہے ۔ قسطلانی نے کہا ائمہ اربعہ اس کی حلت کے قائل ہیں اور طحاوی نے جو حنفی ہیں، اس کی حلت کو ترجیح دی ہے مگر متاخرین حنفیہ جیسے صاحب ہدایہ نے اس کو مکروہ لکھا ہے اور ابوداؤد کی حدیث سے دلیل لی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب کھانے سے منع فرمایا مگر یہ حدیث ضعیف ہے جو صحیح حدیث ہے مقابلہ پر قابل استدلال نہیں ہے ۔ بیان میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی والدہ لبابہ صغریٰ تھیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ لبابہ کبریٰ تھیں۔ یہ دونوں حارث کی بیٹی ہیں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔