‌صحيح البخاري - حدیث 537

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ صحيح وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 537

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! ( آگ کی شدت کی وجہ سے ) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔
تشریح : دوزخ نے حقیقت میں شکوہ کیا، وہ بات کرسکتی ہے جب کہ آیت شریفہ ویوم نقول لجہنم ( ق: 30 ) میں وارد ہے کہ ہم قیامت کے دن دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا، وہ جواب دے گی کہ ابھی تک توبہت گنجائش باقی ہے۔ وقال عیاض انہ الاظہر واللہ قادر علی خلق الحیاۃ بجزءمنہا حتی تکلم اویخلق لہا کلا مایسمعہ من شاءمن خلقہ وقال القرطبی لا احالۃ فی حمل اللفظ علی حقیقتہ واذا اخبر الصادق بامرجائز لم یحتج الی تاویلہ فحملہ علی حقیقتہ اولیٰ۔ ( مرعاۃ المفاتیح،ج 1، ص: 392 ) یعنی عیاض نے کہا کہ یہی امر ظاہر ہے اللہ پاک قادر ہے کہ دوزخ کو کلام کرنے کی طاقت بخشے اوراپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اس کی بات سنادے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ اس امر کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور جب صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امرجائز کی خبردی ہے تو اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کو حقیقت ہی پر محمول کیا جانا مناسب ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: اختلف العلماءفی معناہ فقال بعضہم ہو علی ظاہرہ وقیل بل ہو علی وجہ التشبیہ والاستعارۃ وتقدیرہ ان شدۃ الحر تشبہ نارجہنم فاحذروہ واجتنبوا ضررہ قال والاول اظہر و قال النووی ہو الصواب لانہ ظاہر الحدیث ولامانع من حملہ علی حقیقتہ فوجب الحکم بانہ علی ظاہرہ انتہیٰ۔ ( نیل ) یعنی اس کے معنے میں بعض اہل علم اس کو اپنے ظاہر پر رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس حرارت کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے اورکہا گیاہے کہ اس کے ضررسے بچو اور اوّل مطلب ہی ظاہر ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہی صواب ہے، اس لیے کہ حدیث ظاہرہے اور اسے حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ دوزخ گرمی میں سانس نکالتی ہے، یعنی دوزخ کی بھاپ اوپر کو نکلتی ہے اور زمین کے رہنے والوں کو لگتی ہے، اس کو سخت گرمی معلوم ہوتی ہے اورجاڑے میں اندر کو سانس لیتی ہے تواوپر گرمی نہیں محسوس ہوتی، بلکہ زمین کی ذاتی سردی غالب آکر رہنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بات عقل سلیم کے خلاف نہیں۔ اور حدیث میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ زمین کے اندر دوزخ موجود ہے۔ جیالوجی والے کہتے ہیں کہ تھوڑے فاصلہ پر زمین کے اندر ایسی گرمی ہے کہ وہاں کے تمام عنصرپانی کی طرح پگھلے رہتے ہیں۔ اگرلوہا وہاں پہنچ جائے تواسی دم گل کر پانی ہوجائے۔ سفیان ثوری کی روایت جوحدیث ہذا کے آخر میں درج ہے اسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب بدءالخلق میں اوریحییٰ کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے وصل کیاہے۔ لیکن ابوعوانہ کی روایت نہیں ملی۔ دوزخ نے حقیقت میں شکوہ کیا، وہ بات کرسکتی ہے جب کہ آیت شریفہ ویوم نقول لجہنم ( ق: 30 ) میں وارد ہے کہ ہم قیامت کے دن دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا، وہ جواب دے گی کہ ابھی تک توبہت گنجائش باقی ہے۔ وقال عیاض انہ الاظہر واللہ قادر علی خلق الحیاۃ بجزءمنہا حتی تکلم اویخلق لہا کلا مایسمعہ من شاءمن خلقہ وقال القرطبی لا احالۃ فی حمل اللفظ علی حقیقتہ واذا اخبر الصادق بامرجائز لم یحتج الی تاویلہ فحملہ علی حقیقتہ اولیٰ۔ ( مرعاۃ المفاتیح،ج 1، ص: 392 ) یعنی عیاض نے کہا کہ یہی امر ظاہر ہے اللہ پاک قادر ہے کہ دوزخ کو کلام کرنے کی طاقت بخشے اوراپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اس کی بات سنادے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ اس امر کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور جب صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امرجائز کی خبردی ہے تو اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کو حقیقت ہی پر محمول کیا جانا مناسب ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: اختلف العلماءفی معناہ فقال بعضہم ہو علی ظاہرہ وقیل بل ہو علی وجہ التشبیہ والاستعارۃ وتقدیرہ ان شدۃ الحر تشبہ نارجہنم فاحذروہ واجتنبوا ضررہ قال والاول اظہر و قال النووی ہو الصواب لانہ ظاہر الحدیث ولامانع من حملہ علی حقیقتہ فوجب الحکم بانہ علی ظاہرہ انتہیٰ۔ ( نیل ) یعنی اس کے معنے میں بعض اہل علم اس کو اپنے ظاہر پر رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس حرارت کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے اورکہا گیاہے کہ اس کے ضررسے بچو اور اوّل مطلب ہی ظاہر ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہی صواب ہے، اس لیے کہ حدیث ظاہرہے اور اسے حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ دوزخ گرمی میں سانس نکالتی ہے، یعنی دوزخ کی بھاپ اوپر کو نکلتی ہے اور زمین کے رہنے والوں کو لگتی ہے، اس کو سخت گرمی معلوم ہوتی ہے اورجاڑے میں اندر کو سانس لیتی ہے تواوپر گرمی نہیں محسوس ہوتی، بلکہ زمین کی ذاتی سردی غالب آکر رہنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بات عقل سلیم کے خلاف نہیں۔ اور حدیث میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ زمین کے اندر دوزخ موجود ہے۔ جیالوجی والے کہتے ہیں کہ تھوڑے فاصلہ پر زمین کے اندر ایسی گرمی ہے کہ وہاں کے تمام عنصرپانی کی طرح پگھلے رہتے ہیں۔ اگرلوہا وہاں پہنچ جائے تواسی دم گل کر پانی ہوجائے۔ سفیان ثوری کی روایت جوحدیث ہذا کے آخر میں درج ہے اسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب بدءالخلق میں اوریحییٰ کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے وصل کیاہے۔ لیکن ابوعوانہ کی روایت نہیں ملی۔