كِتَابُ النَّفَقَاتِ بَابُ نَفَقَةِ المُعْسِرِ عَلَى أَهْلِهِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلَكْتُ، قَالَ: «وَلِمَ؟» قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى أَهْلِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «فَأَعْتِقْ رَقَبَةً» قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي، قَالَ: «فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ» قَالَ: لاَ أَسْتَطِيعُ، قَالَ: «فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا» قَالَ: لاَ أَجِدُ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ، فَقَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» قَالَ: هَا أَنَا ذَا، قَالَ: «تَصَدَّقْ بِهَذَا» قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنَّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، قَالَ: «فَأَنْتُمْ إِذًا»
کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
باب: مفلس آدمی کو ( جب کچھ ملے تو ) پہلے اپنی بیوی کو کھلاناواجب ہے
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے حمیدبن عبدالرحمن نے اوران سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں تو ہلاک ہو گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آخر کیا بات ہوئی ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں ہم بستری کرلی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ایک غلام آزاد کر دو ۔ ( یہ کفارہ ہو جائے گا ) انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، پھر دو مہینے متواتر روزے رکھ لو ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ اتنا میرے پاس بھی نہیں ہے ۔ اس کے بعد آپ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ۔ آپ نے دریافت فرمایاکہ مسئلہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ ان صاحب نے عرض کیا میں یہاں حاضر ہوں ۔ آپ نے فرمایا لو اسے ( اپنی طرف سے ) صدقہ کر دینا ۔ انہوں نے کہا اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر ، یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور آپ کے مبارک دانت دکھائی دینے لگے اور فرمایا ، پھر تم ہی اس کے زیادہ مستحق ہو ۔
تشریح :
دوسری روایت میں یوں ہے تو بھی کھا اوراپنے گھر والوں کو بھی کھلا تو آپ نے کفارے کی ادائیگی پر اس کے گھر والوں کا کھانا مقدم سمجھا یا اس شخص نے کفارہ کے وجوب کے ساتھ اپنے گھر والوں کے خرچ کا اہتمام کیا اور ان کی محتاجی ظاہر کی۔ اگر گھر والوں کو کھانا ضروری نہ ہوتا تو وہ اس کھجور کو خیرات کرنا مقدم سمجھتا ۔ عرق ایسے تھیلے کو کہتے ہیں جس میں 15 صاع کھجور سما جائے۔ اس حدیث سے آج گرانی کے دور میں عامۃ المسلمین کے لیے بہت سہولت نکلتی ہے جبکہ لوگ گرانی سے سخت پریشان ہیں اور اکثر بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں علماءکرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ خیرات کے سلسلہ میں ایسے غرباء کا بہت زیادہ دھیان رکھیں، صدقہ فطر وغیرہ میں بھی یہی اصول ہے۔
دوسری روایت میں یوں ہے تو بھی کھا اوراپنے گھر والوں کو بھی کھلا تو آپ نے کفارے کی ادائیگی پر اس کے گھر والوں کا کھانا مقدم سمجھا یا اس شخص نے کفارہ کے وجوب کے ساتھ اپنے گھر والوں کے خرچ کا اہتمام کیا اور ان کی محتاجی ظاہر کی۔ اگر گھر والوں کو کھانا ضروری نہ ہوتا تو وہ اس کھجور کو خیرات کرنا مقدم سمجھتا ۔ عرق ایسے تھیلے کو کہتے ہیں جس میں 15 صاع کھجور سما جائے۔ اس حدیث سے آج گرانی کے دور میں عامۃ المسلمین کے لیے بہت سہولت نکلتی ہے جبکہ لوگ گرانی سے سخت پریشان ہیں اور اکثر بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں علماءکرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ خیرات کے سلسلہ میں ایسے غرباء کا بہت زیادہ دھیان رکھیں، صدقہ فطر وغیرہ میں بھی یہی اصول ہے۔