‌صحيح البخاري - حدیث 5364

كِتَابُ النَّفَقَاتِ بَابُ إِذَا لَمْ يُنْفِقِ الرَّجُلُ فَلِلْمَرْأَةِ أَنْ تَأْخُذَ بِغَيْرِ عِلْمِهِ مَا يَكْفِيهَا وَوَلَدَهَا بِالْمَعْرُوفِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ وَلَيْسَ يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَوَلَدِي، إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْهُ وَهُوَ لاَ يَعْلَمُ، فَقَالَ: «خُذِي مَا يَكْفِيكِ [ص:66] وَوَلَدَكِ، بِالْمَعْرُوفِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5364

کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں باب: اگر مرد خرچ نہ کرے تو عورت اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنے لے سکتی ہے جو دستور کے مطابق اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے کافی ہو ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، کہا کہ مجھے میرے والد ( عروہ نے ) خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہند بنت عتبہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ابو سفیان ( ان کے شوہر ) بخیل ہیں اور مجھے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو سکے ۔ ہاں اگر میں ان کی لا علمی میں ان کے مال میں سے لے لوں ( تو کام چلتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دستور کے موافق اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو سکے ۔
تشریح : بخیل مرد کی عورت کوجائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنا اور بچوں کا گزران لے لینا جائز ہے۔ یہی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا ہیں جن کے متعلق مزید تفصیل یہ ہے ۔ وکانت ھند لما قتل ابوھا عتبۃ وعمھا شیبۃ واخوھا الولید یوم بدر شق علیھا فلما کان یوم بدر وقتل حمزۃ فرحت بذالک وعمدت الی بطنہ فشقتھا واخذت کبدہ فلا کتھا ثم یفظتھا فلما کام یوم الفتح ودخل ابو سفیان مکۃ مسلما بعد ان اسرتہ خیل النبی صلی اللہ علیہ تلک اللیلۃ فاجازہ العباس فغضبر ھند لاجل اسلامہ واخذت بلحیتہ ثم انھا بعد استقرار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بمکۃ جاءت فاسلمت وبایعت وقالت یا رسول اللہ ماکان علیٰ ظھر الارض من اھل خباءاحب الی ان یذلوا من اھل خبائک وما علی ظھر الارض الیوم خباءاحب الی ان یعزو من اھل خبائک فقال ایضا والذی نفسی بیدہ ( فتح ) ( پارہ: 22ص: 238 ) یہ اس لیے ہو ا کہ جنگ بدر میں جب ہند کا باپ عتبہ اور اس کا چچا شیبہ اور اس کا بھائی ولید مقتول ہوئے تو یہ اس پر بہت بھاری گزرا اور اس غصہ کی بنا پر اس نے وحشی کو لالچ دے کراس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا۔ اس سے وہ بہت خوش ہوئی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ کو اس نے چاک کیا اور آپ کے کلیجہ کو نکال کر چبا کر پھینک دیا ۔ جب فتح مکہ کا دن ہوا اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ مکہ میں مسلمان ہو کر داخل ہوا کیونکہ اسے اسلامی لشکر نے قید کر لیا تھا۔ پس اسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پناہ دی تو اس کے اسلام پر ہندہ بہت غصہ ہوئی اور اس کی داڑھی کو پکڑ لیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مستقل طور پر قابض ہو گئے تو ہندہ حاضر دربار رسالت ہو کر مسلمان ہوگئی اور کہا کہ یا رسول اللہ ! دنیا میں کوئی گھرانہ میری نظر وں میں آپ کے گھرانے سے زیادہ ذلیل نہ تھا مگر آج اسلام کی بدولت دنیا میں کوئی گھرانہ میرے نزدیک آپ کے گھرانے سے زیادہ معزز نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میرے نزدیک بھی یہی معاملہ ہے ۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی دشمن عورت کے لیے بھی آپ کے دل میں کتنی گنجائش ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسلام قبول کر لیتی ہے۔ آپ اس کی ساری مخالفانہ حرکتوں کو فراموش فرما کر اسے اپنے دربارعالیہ میں شرف باریابی عطا فرما کر سرفراز فرما دیتے ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم الف الف مرۃ وعدد کل ذرۃ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین آمین۔ بخیل مرد کی عورت کوجائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنا اور بچوں کا گزران لے لینا جائز ہے۔ یہی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا ہیں جن کے متعلق مزید تفصیل یہ ہے ۔ وکانت ھند لما قتل ابوھا عتبۃ وعمھا شیبۃ واخوھا الولید یوم بدر شق علیھا فلما کان یوم بدر وقتل حمزۃ فرحت بذالک وعمدت الی بطنہ فشقتھا واخذت کبدہ فلا کتھا ثم یفظتھا فلما کام یوم الفتح ودخل ابو سفیان مکۃ مسلما بعد ان اسرتہ خیل النبی صلی اللہ علیہ تلک اللیلۃ فاجازہ العباس فغضبر ھند لاجل اسلامہ واخذت بلحیتہ ثم انھا بعد استقرار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بمکۃ جاءت فاسلمت وبایعت وقالت یا رسول اللہ ماکان علیٰ ظھر الارض من اھل خباءاحب الی ان یذلوا من اھل خبائک وما علی ظھر الارض الیوم خباءاحب الی ان یعزو من اھل خبائک فقال ایضا والذی نفسی بیدہ ( فتح ) ( پارہ: 22ص: 238 ) یہ اس لیے ہو ا کہ جنگ بدر میں جب ہند کا باپ عتبہ اور اس کا چچا شیبہ اور اس کا بھائی ولید مقتول ہوئے تو یہ اس پر بہت بھاری گزرا اور اس غصہ کی بنا پر اس نے وحشی کو لالچ دے کراس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا۔ اس سے وہ بہت خوش ہوئی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ کو اس نے چاک کیا اور آپ کے کلیجہ کو نکال کر چبا کر پھینک دیا ۔ جب فتح مکہ کا دن ہوا اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ مکہ میں مسلمان ہو کر داخل ہوا کیونکہ اسے اسلامی لشکر نے قید کر لیا تھا۔ پس اسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پناہ دی تو اس کے اسلام پر ہندہ بہت غصہ ہوئی اور اس کی داڑھی کو پکڑ لیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مستقل طور پر قابض ہو گئے تو ہندہ حاضر دربار رسالت ہو کر مسلمان ہوگئی اور کہا کہ یا رسول اللہ ! دنیا میں کوئی گھرانہ میری نظر وں میں آپ کے گھرانے سے زیادہ ذلیل نہ تھا مگر آج اسلام کی بدولت دنیا میں کوئی گھرانہ میرے نزدیک آپ کے گھرانے سے زیادہ معزز نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میرے نزدیک بھی یہی معاملہ ہے ۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی دشمن عورت کے لیے بھی آپ کے دل میں کتنی گنجائش ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسلام قبول کر لیتی ہے۔ آپ اس کی ساری مخالفانہ حرکتوں کو فراموش فرما کر اسے اپنے دربارعالیہ میں شرف باریابی عطا فرما کر سرفراز فرما دیتے ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم الف الف مرۃ وعدد کل ذرۃ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین آمین۔