كِتَابُ النَّفَقَاتِ بَابُ حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ قُوتَ سَنَةٍ عَلَى أَهْلِهِ، وَكَيْفَ نَفَقَاتُ العِيَالِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الحَدَثَانِ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، ذَكَرَ لِي ذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مَالِكٌ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ، إِذْ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلُوا وَسَلَّمُوا فَجَلَسُوا، ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَا قَلِيلًا، فَقَالَ لِعُمَرَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلاَ سَلَّمَا وَجَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، فَقَالَ: الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ. قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا المَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ اللَّهُ: {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ} [الحشر: 6]
کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
باب: مرد کا اپنی بچوں کے لیے ایک سال کا خرچ جمع کرناجائز ہے اور جورو بچوں پر کیوں کر خرچ کرے اس کا بیان
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی ( ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ ) محمد بن جبیر بن مطعم نے اس کا بعض حصہ بیان کیا تھا ، ا س لیے میں روانہ ہوا اور مالک بن اوس کی خدمت میں پہنچا اوران سے یہ حدیث پوچھی ۔ مالک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے دربان یرفاءان کے پاس آئے اور کہا عثمان بن عفان ، عبدالرحمن ، زید اورسعد رضی اللہ عنہم ( آپ سے ملنے کی ) اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اس کی اجازت دیں گے ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اندر بلالو ۔ چنانچہ انہیں اس کی اجازت دے دی گئی ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ سب اندر تشریف لائے اور سلام کرکے بیٹھ گئے ۔ یر فاءنے تھوڑی دیر کے بعد پھر عمر رضی اللہ عنہ سے آکر کہا کہ علی اورعباس رضی اللہ عنہ بھی ملنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی اندر بلانے کے لیے کہا ۔ اندر آکر ان حضرات نے بھی سلام کیااوربیٹھ گئے ۔ اس کے بعد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ، امیر المؤمنین میرے اور ان ( علی رضی اللہ عنہ ) کے درمیان فیصلہ کر دیجئے ۔ دوسرے صحابہ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی کہا کہ امیر المؤمنین ان کا فیصلہ فرمادیجئے اور انہیں اس الجھن سے نجات دیجئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جلدی نہ کرو میں اللہ کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ، جو کچھ ہم انبیاءوفات کے وقت چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ خود اپنی ذات کی طرف تھا ۔ صحابہ نے کہاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی اورعباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں ، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ انہوںنے بھی تصدیق کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی یہ فرمایا تھا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ اب میں آپ سے اس معاملہ میں بات کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال ( فے ) میں مختار کل ہونے کی خصوصیت بخشی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اس میں سے کسی دوسرے کو کچھ نہیں دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا ۔ ما افاءاللہ علیٰ رسولہ منھم الی قولہ قدیر ۔ “ اس لیے یہ ( چار خمس ) خاص آپ کے لیے تھے ۔ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کرکے اس مال کو اپنے لیے خاص نہیں کر لیا تھا اورنہ تمہارا کم کرکے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے رکھا تھا ، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تم سب میں اس کی تقسیم کی آخر میں جو مال باقی رہ گیا تو اس میں سے آپ اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچ لیتے اور اس کے بعد جو باقی بچتا اسے اللہ کے مال کے مصرف ہی میں ( مسلمانوں کے لیے ) خرچ کردیتے ۔ آپ نے اپنی زندگی بھر اسی کے مطابق عمل کیا ۔ اے عثمان ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا تمہیں یہ معلوم ہے ؟ سب نے کہا کہ جی ہاں ، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا ، میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے ؟ انہوں نے بھی کہاکہ جی ہاں معلوم ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وفات کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اس میں عمل کیا ۔ علی اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر انہوں نے کہا ۔ آپ دونوں اس وقت موجود تھے ، آپ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اوراللہ جنتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں مخلص ، محتاط ونیک نیت اور صحیح راستے پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اتباع کرنے والے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اور اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشین ہوں ۔ میں دو سال سے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لئے ہوئے ہوں اور وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا تھا ۔ اب آپ حضرات میرے پاس آئے ہیں ، آپ کی بات ایک ہی ہے اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے ۔ آپ ( عباس رضی اللہ عنہ ) آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وراثت کا مطالبہ کیا اور آپ ( علی رضی اللہ عنہ ) آئے اور انہوں نے اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کے ترکہ کا مطالبہ کیا ۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ جائیداد دے سکتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ پر اللہ کا عہد واجب ہوگا ۔ وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل رکھیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا ، جس کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور جب سے میں اس کا والی ہوا ہوں ، میں نے جو اس کے ساتھ معاملہ رکھا ۔ اور اگر یہ شرط منظور نہ ہو توپھر آپ مجھ سے اس بارے میں گفتگو چھوڑیں ۔ آپ لوگوں نے کہاکہ اس شرط کے مطابق وہ جائیداد ہمارے حوالہ کردو اورمیں نے اسے اس شرط کے ساتھ تم لوگوں کے حوالہ کردیا ۔ کیوں عثمان اور ان کے ساتھیو ! میں آپ کواللہ کی قسم دیتا ہوں میں نے اس شرط ہی پروہ جائیداد علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے قبضہ میں دی ہے نا ؟ انہوں نے کہاکہ جی ہاں ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا میں نے آپ دونوں کے حوالہ وہ اس شرط کے ساتھ کی تھی ؟ دونوں حضرات نے فرمایا کہ جی ہاں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، کیا آپ حضرات اب اس کے سوا مجھ سے کوئی اورفیصلہ چاہتے ہیں ؟ اس ذات کی قسم ہے جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں اس کے سوا میں کوئی اور فیصلہ قیامت تک نہیں کر سکتا ۔ اب لوگ اس کی ذمہ داری پوری کرنے سے عاجز ہیں تو مجھے واپس کردیں میں اس اس کا بندوبست آپ ہی کر لوں گا ۔
تشریح :
حدیث ہذا میں مال خمس میں سے اپنے اہل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل منقول ہے کہ آپ اس میں سے سال بھر کا خرچہ رکھ لیا کرتے تھے ۔ یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے۔ آخری جملہ کا مطلب یہ کہ تم چاہو کہ میں ذاتی ملک املاک کی طرح یہ جائیداد تم دونوں میں تقسیم کردوں یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ تم سب کو خوب معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” لا نورث ما ترکنا صدقۃ “ ہمارا ترکہ ایک صدقہ ہوتا ہے جس کا کوئی خاص وارث نہیں ہو سکتا۔
حدیث ہذا میں مال خمس میں سے اپنے اہل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل منقول ہے کہ آپ اس میں سے سال بھر کا خرچہ رکھ لیا کرتے تھے ۔ یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے۔ آخری جملہ کا مطلب یہ کہ تم چاہو کہ میں ذاتی ملک املاک کی طرح یہ جائیداد تم دونوں میں تقسیم کردوں یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ تم سب کو خوب معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” لا نورث ما ترکنا صدقۃ “ ہمارا ترکہ ایک صدقہ ہوتا ہے جس کا کوئی خاص وارث نہیں ہو سکتا۔