كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ المَهْرِ لِلْمَدْخُولِ عَلَيْهَا، وَكَيْفَ الدُّخُولُ، أَوْ طَلَّقَهَا قَبْلَ الدُّخُولِ وَالمَسِيسِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ؟ فَقَالَ: فَرَّقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي العَجْلاَنِ، وَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟» فَأَبَيَا، فَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟» فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا - قَالَ أَيُّوبُ: فَقَالَ لِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: فِي الحَدِيثِ شَيْءٌ لاَ أَرَاكَ تُحَدِّثُهُ قَالَ - قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي؟ قَالَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهُوَ أَبْعَدُ مِنْكَ»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: جس عورت سے صحبت کی اس کا پورا مہر واجب ہوجانا
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی ، انہیں ایوب سختیانی نے اور ان سے سعید بن کبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان قبیلہ کے میاں بیوی میں جدائی کرادی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے ، تو کیا وہ رجوع کرے گا ؟ لیکن دونوں نے انکار کیا ، آپ نے دوبارہ فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے اسے جو تم میں سے ایک جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں ؟ لیکن دونوں نے پھر توبہ سے انکار کیا ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرادی ۔ ایوب نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے کہا کہ یہاں حدیث میں ایک چیز اورہے میں نے تمہیں اسے بیان کرتے نہیں دیکھا ۔ وہ یہ ہے کہ ( تہمت لگانے والے ) شوہر نے کہا تھا کہ میرا مال ( مہر ) دلوا دیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ وہ تمہارا مال ہی نہیں رہا ۔ اگر تم سچے بھی ہو تو تم اس سے خلوت کر چکے ہوا اور اگر جھوٹے ہو تب تو تم کو بطریق اولیٰ کچھ نہ ملنا چاہیئے ۔
تشریح :
حدیث کے لفظ ” دخلت بھا“ سے نکلا کہ جماع سے مہر واجب ہو تا ہے کیونکہ دوسری روایت میں لفظ ” بما استحللت من فرجھا “ صاف موجود ہے۔ اگر وہ مرد اس عورت سے صحبت نہ کر چکا ہو تا تو بے شک اگر اس نے سارا مہر ادا کردیا ہو تا تواس کو اس میں سے کچھ یعنی نصف واپس ملتا آخری جملہ کا مطلب ہے کہ تو نے اس عورت سے صحبت بھی کی پھر اسے بد نام بھی کیا۔ اب مال مہر کا سوال ہی کیا ہے؟ اس سے یہ بھی ظاہر ہو ا کہ اسلام میں عورت کی عزت کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اپنی عورت پر جھوٹا الزام لگانا اس کے شوہر کے لیے بہت گناہ ہے۔
حدیث کے لفظ ” دخلت بھا“ سے نکلا کہ جماع سے مہر واجب ہو تا ہے کیونکہ دوسری روایت میں لفظ ” بما استحللت من فرجھا “ صاف موجود ہے۔ اگر وہ مرد اس عورت سے صحبت نہ کر چکا ہو تا تو بے شک اگر اس نے سارا مہر ادا کردیا ہو تا تواس کو اس میں سے کچھ یعنی نصف واپس ملتا آخری جملہ کا مطلب ہے کہ تو نے اس عورت سے صحبت بھی کی پھر اسے بد نام بھی کیا۔ اب مال مہر کا سوال ہی کیا ہے؟ اس سے یہ بھی ظاہر ہو ا کہ اسلام میں عورت کی عزت کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اپنی عورت پر جھوٹا الزام لگانا اس کے شوہر کے لیے بہت گناہ ہے۔