كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا} [البقرة: 234]- إِلَى قَوْلِهِ - {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} [البقرة: 234] صحيح حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا} [البقرة: 234] قَالَ: كَانَتْ هَذِهِ العِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ} قَالَ: جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَصِيَّةً، إِنْ شَاءَتْ [ص:61] سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ} [البقرة: 240] فَالعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا زَعَمَ ذَلِكَ عَنْ مُجَاهِدٍ وَقَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَسَخَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {غَيْرَ إِخْرَاجٍ} [البقرة: 240] وَقَالَ عَطَاءٌ: إِنْ شَاءَتْ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهَا، وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ: {فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ} [البقرة: 234] قَالَ عَطَاءٌ: «ثُمَّ جَاءَ المِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَلاَ سُكْنَى لَهَا»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں “ اللہ تعالیٰ کے فرمان ( اور سورۃ بقرہ ) ” بما تعملون خبیر “ تک ۔ یعنی وفات کی عدت کا بیان
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی ، کہا ہم سے شبل بن عباد نے ، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے آیت کریمہ ” والذین یتوفون “ الخ ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ۔ “ کے متعلق کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے گھر والوں کے پاس گزاری جاتی تھی ، پہلے واجب تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” والذین یتوفون منکم “ الخ ، یعنی ” اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ( ان پر لازم ہے کہ ) اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک ( گھر سے ) نہ نکالی جائیں لیکن اگر وہ ( خود ) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں ۔ “ اس باب میں جسے وہ ( بیویاں ) اپنے بارے میں دستور کے مطابق کریں ۔ مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی بیوہ کے لیے سات مہینے بیس دن سال بھر میں سے وصیت قرار دی ۔ اگر وہ چاہے تو شوہر کی وصیت کے مطابق وہیں ٹھہر ی رہے اوراگر چاہے ( چار مہینے دس دن کی عدت ) پوری کرکے وہاںسے چلی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” غیر اخراج “ تک یعنی انہیں نکالا نہ جائے ۔ البتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں “ کا یہی منشا ہے ۔ پس عدت تو جیسی کہ پہلی تھی ، اب بھی اس پر واجب ہے ۔ ابن ابی نجیح نے اسے مجاہد سے بیان کیا اور عطاءنے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس پہلی آیت نے بیوہ کو خاوند کے گھر میں عدت گزارنے کے حکم کو منسوخ کردیا ، اس لیے اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے اور ( اسی طرح اس آیت نے ) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” غیر اخراج “ یعنی ” انہیں نکالا نہ جائے “ ( کو بھی منسوخ کردیا ہے ) عطاءنے کہا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے ( شوہر کے ) گھر والوں کے یہاں ہی عدت گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ فلیس علیکم جناح الخ ، یعنی ” پس تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں ، جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں “ عطاءنے کہا کہ اس کے بعد میراث کا حکم نازل ہوا اور اس نے مکان کے حکم کو منسوخ کردیا ۔ پس وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس کے لیے ( شوہر کی طرف سے ) مکان کا انتظام نہیں ہوگا ۔
تشریح :
عام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی مدت کی آیت منسوخ ہے اورچارمہینے دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہو ا تھا پھر اللہ نے اسے کم کرکے چار مہینے اور دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری ۔ اگر عورت سات مہینے بیس دن یا ایک سال پورا ہونے تک اپنی سسرال میں رہنا چاہے تو سسرال والے اسے نکال نہیں سکتے۔ ” غیر اخراج “ کا یہی مطلب ہے۔ یہ مذہب خاص مجاہد کا ہے۔ انہوں نے یہ خیال کیاکہ ایک سال کی عدت کا حکم بعد میں اترا ہے اور چار مہینے دس دن کا پہلے اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ناسخ منسوخ سے پہلے اترے۔ اس لیے انہوں نے دونوں آیتوں میں یوں جمع کیا ۔ باقی تمام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی عدت کی آیت منسوخ ہے اور چار مہینے دس دن کی عدت کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہواتھا پھر اللہ نے اسے کم کرکے چار مہینے دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری یعنی اربعۃ اشھر وعشرا ۔ والی آیت ۔ اب عورت خواہ سسرال میں رہے، خواہ اپنے میکے میں۔ اسی طرح تین طلاق کے خاوند کے گھر میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خاوند کے گھر میں عدت پوری کرنا اس وقت عورت پر واجب ہے، جب طلاق رجعی ہو کیونکہ خاوند کے رجوع کرنے کی امید ہوتی ہے۔
عام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی مدت کی آیت منسوخ ہے اورچارمہینے دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہو ا تھا پھر اللہ نے اسے کم کرکے چار مہینے اور دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری ۔ اگر عورت سات مہینے بیس دن یا ایک سال پورا ہونے تک اپنی سسرال میں رہنا چاہے تو سسرال والے اسے نکال نہیں سکتے۔ ” غیر اخراج “ کا یہی مطلب ہے۔ یہ مذہب خاص مجاہد کا ہے۔ انہوں نے یہ خیال کیاکہ ایک سال کی عدت کا حکم بعد میں اترا ہے اور چار مہینے دس دن کا پہلے اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ناسخ منسوخ سے پہلے اترے۔ اس لیے انہوں نے دونوں آیتوں میں یوں جمع کیا ۔ باقی تمام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی عدت کی آیت منسوخ ہے اور چار مہینے دس دن کی عدت کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہواتھا پھر اللہ نے اسے کم کرکے چار مہینے دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری یعنی اربعۃ اشھر وعشرا ۔ والی آیت ۔ اب عورت خواہ سسرال میں رہے، خواہ اپنے میکے میں۔ اسی طرح تین طلاق کے خاوند کے گھر میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خاوند کے گھر میں عدت پوری کرنا اس وقت عورت پر واجب ہے، جب طلاق رجعی ہو کیونکہ خاوند کے رجوع کرنے کی امید ہوتی ہے۔