كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق: 4] صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ: أَنَّ سُبَيْعَةَ الأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْهُ أَنْ تَنْكِحَ، «فَأَذِنَ لَهَا فَنَكَحَتْ»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ بچہ جنیں
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے مسور بن مخرمہ نے کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد چند دنوں تک حالت نفاس مےں رہیں ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر انہوں نے نکاح کی اجازت مانگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور انہوں نے نکاح کیا ۔
تشریح :
قرءحیض اور طہر دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اسی لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ” ثلاثۃ قروء“ سے تین حیض مراد رکھے ہیں اور شافعی نے تین طہر۔ مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے اس لیے کہ طلاق طہر میں مشروع ہے حیض میں نہیں اب اگر کسی نے ایک طہر مےں طلاق دی تو یا تو یہ طہر عدت میں شمار ہوگا۔ شافعیہ کہتے ہیں تب تو عدت تین طہر سے کم ٹھہرے گی ۔ اگر محسوب نہ ہوگا تو عدت تین طہر سے زائد ہو جائے گی۔ شافعیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ دو طہر اور تیسرے طہر کے ایک حصے کو تین طہر کہہ سکتے ہیں جیسے فرمایا الحج اشھر معلومات ( البقرۃ: 197 ) حالانکہ حقیقت میں حج کے دو مہینے دس دن ہیں۔
قرءحیض اور طہر دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اسی لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ” ثلاثۃ قروء“ سے تین حیض مراد رکھے ہیں اور شافعی نے تین طہر۔ مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے اس لیے کہ طلاق طہر میں مشروع ہے حیض میں نہیں اب اگر کسی نے ایک طہر مےں طلاق دی تو یا تو یہ طہر عدت میں شمار ہوگا۔ شافعیہ کہتے ہیں تب تو عدت تین طہر سے کم ٹھہرے گی ۔ اگر محسوب نہ ہوگا تو عدت تین طہر سے زائد ہو جائے گی۔ شافعیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ دو طہر اور تیسرے طہر کے ایک حصے کو تین طہر کہہ سکتے ہیں جیسے فرمایا الحج اشھر معلومات ( البقرۃ: 197 ) حالانکہ حقیقت میں حج کے دو مہینے دس دن ہیں۔