‌صحيح البخاري - حدیث 5318

كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق: 4] صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ [ص:57] جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الأَعْرَجِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَتْهُ عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَسْلَمَ يُقَالُ لَهَا سُبَيْعَةُ، كَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا، تُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَى، فَخَطَبَهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَقَالَ: «وَاللَّهِ مَا يَصْلُحُ أَنْ تَنْكِحِيهِ حَتَّى تَعْتَدِّي آخِرَ الأَجَلَيْنِ»، فَمَكُثَتْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرِ لَيَالٍ، ثُمَّ جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «انْكِحِي»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5318

کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان باب: حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ بچہ جنیں ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے جعفربن ربیعہ نے ، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے ، کہاکہ مجھے خبر دی ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہ زینب ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبردی کہ ایک خاتون جو اسلام لائی تھیں اور جن کا نام سبیعہ تھا ، اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں ، شوہر کا جب انتقال ہو ا تو وہ حاملہ تھیں ۔ ابو سنان بن بعکک رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے نکاح کرنے سے انکار کیا ۔ ابو السنابل نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جب تک عدت کی دو مدتوں میں سے لمبی نہ گزارلوں گی ، تمہارے لیے اس سے ( جس سے نکاح وہ کرنا چاہتی تھیں ) نکاح کرنا صحیح نہیں ہوگا ۔ پھر وہ ( وضع حمل کے بعد ) تقریباً دس دن تک رکی رہیں ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نکاح کر لو ۔
تشریح : ابوالسنابل نے عورت کویہ غلط مسئلہ سنا کر اس کو بہکایا کہ بالفعل وہ اپنا نکاح ملتوی کردے تو اس کے عزیز واقرباءجو اس وقت موجود نہ تھے آجائیں گے اور وہ اس کو سمجھا بجھا کر مجھ سے نکاح پر راضی کردیں گے۔ دو مدتوں سے ایک وضع حمل کی مدت ہے ، دوسری چار ماہ دس دن کی مدت ہے ۔ جس کے لیے ابو السنابل نے فتویٰ دیا تھا حالانکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور بس۔ ابوالسنابل نے عورت کویہ غلط مسئلہ سنا کر اس کو بہکایا کہ بالفعل وہ اپنا نکاح ملتوی کردے تو اس کے عزیز واقرباءجو اس وقت موجود نہ تھے آجائیں گے اور وہ اس کو سمجھا بجھا کر مجھ سے نکاح پر راضی کردیں گے۔ دو مدتوں سے ایک وضع حمل کی مدت ہے ، دوسری چار ماہ دس دن کی مدت ہے ۔ جس کے لیے ابو السنابل نے فتویٰ دیا تھا حالانکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور بس۔