كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ التَّلاَعُنِ فِي المَسْجِدِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ المُلاَعَنَةِ، وَعَنِ السُّنَّةِ فِيهَا، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي شَأْنِهِ مَا ذَكَرَ فِي القُرْآنِ مِنْ أَمْرِ المُتَلاَعِنَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ قَضَى اللَّهُ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ» قَالَ: فَتَلاَعَنَا فِي المَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَا مِنَ التَّلاَعُنِ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ذَاكَ تَفْرِيقٌ بَيْنَ كُلِّ مُتَلاَعِنَيْنِ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتِ السُّنَّةُ بَعْدَهُمَا أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ المُتَلاَعِنَيْنِ. وَكَانَتْ حَامِلًا، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى لِأُمِّهِ، قَالَ: ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي مِيرَاثِهَا أَنَّهَا تَرِثُهُ وَيَرِثُ مِنْهَا مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ فِي هَذَا الحَدِيثِ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا، كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلاَ أُرَاهَا إِلَّا قَدْ صَدَقَتْ وَكَذَبَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ أَعْيَنَ، ذَا أَلْيَتَيْنِ، فَلاَ أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا» فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى المَكْرُوهِ مِنْ ذَلِكَ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: مسجد میں لعان کرنے کا بیان
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبردی ، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے لعان کے بارے میں اور یہ کہ شریعت کی طرف سے اس کا سنت طریقہ کیا ہے ، خبردی بنی ساعدہ کے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ، انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے ، کیا وہ اسے قتل کردے یا اسے کیا کرنا چاہیئے ؟ انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی وہ آیت نازل کی جس میں لعان کرنے والوں کے لیے تفصیلات بیان ہوئی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کر دیا ہے ۔ بیان کیاکہ پھر دونوںنے مسجد میں لعان کیا ، میں اس وقت وہاں موجود تھا ۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگا ئی تھی ۔ چنانچہ لعان سے فارغ ہو نے کے بعد انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی انہیں تین طلاقیں دے دیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہی انہیں جدا کر دیا ۔ ( سہل نے یا ابن شہاب نے ) کہا کہ ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان یہی جدائی کا سنت طریقہ مقرر ہوا ۔ ابن جریج نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ان کے بعد شریعت کی طرف سے طریقہ یہ متعین ہوا کہ دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرادی جایا کرے ۔ اور وہ عورت حاملہ تھی ۔ اور ان کا بیٹا اپنی ماںکی طرف منسوب کیاجاتا تھا ۔ بیان کیاکہ پھر ایسی عورت کے میراث کے بارے میں بھی یہ طریقہ شریعت کی طرف سے مقرر ہو گیا کہ بچہ اس کا وارث ہوگا اوروہ بچہ کی وارث ہوگی ۔ اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سلسلہ میں فرض کیا ہے ۔ ابن جریج نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے ، اسی حدیث میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ( لعان کرنے والی خاتون ) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جےسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا ، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا ۔ ( عورت جھوٹی ہے ) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا ( یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی )
تشریح :
اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی ۔ دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے ۔ امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ وحرہ ( چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور ، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں )
اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی ۔ دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے ۔ امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ وحرہ ( چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور ، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں )