‌صحيح البخاري - حدیث 530

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ تَضْيِيعِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِهَا صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ أَبُو عُبَيْدَةَ الحَدَّادُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، أَخِي عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكَ؟ فَقَالَ: «لاَ أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلاَةَ وَهَذِهِ الصَّلاَةُ قَدْ ضُيِّعَتْ» وَقَالَ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ نَحْوَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 530

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: نماز کو بے وقت پڑھنا نماز کو ضائع ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبدالواحد بن واصل ابوعبیدہ حداد نے خبر دی، انھوں نے عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا کہ میں دمشق میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ اور بکر بن خلف نے کہا کہ ہم سے محمد بن بکر برسانی نے بیان کیا کہ ہم سے عثمان بن ابی رواد نے یہی حدیث بیان کی۔
تشریح : اس روایت سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو نمازوں کا کس قدر اہتمام مدنظر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تاخیر سے نماز پڑھنے کو نماز کا ضائع کرنا قرار دیا۔ امام زہری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دمشق میں سنی تھی۔ جب کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج کی امارت کے زمانہ میں دمشق کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے حجاج کی شکایت کرنے آئے تھے کہ وہ نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے ہیں۔ ایسے ہی وقت میں ہدایت کی گئی ہے کہ تم اپنی نمازوقت پر ادا کرلو اوربعد میں جماعت سے بھی پڑھ لو تاکہ فتنہ کا وقوع نہ ہو۔ یہ نفل نماز ہوجائے گی۔ مولاناوحیدالزماں صاحب حیدرآبادی نے کیا خوب فرمایاکہ اللہ اکبر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حال تھا تووائے برحال ہمارے زمانے کے اب تو توحیدسے لے کر شروع عبادات تک لوگوں نے نئی باتیں اورنئے اعتقاد تراش لیے ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شان گمان بھی نہ تھا۔ اور اگرکوئی اللہ کا بندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے طریق کے موافق چلتا ہے اس پر طرح طرح کی تہمتیں رکھی جاتی ہیں، کوئی ان کو وہابی کہتاہے کوئی لامذہب کہتاہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اس روایت سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو نمازوں کا کس قدر اہتمام مدنظر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تاخیر سے نماز پڑھنے کو نماز کا ضائع کرنا قرار دیا۔ امام زہری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دمشق میں سنی تھی۔ جب کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج کی امارت کے زمانہ میں دمشق کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے حجاج کی شکایت کرنے آئے تھے کہ وہ نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے ہیں۔ ایسے ہی وقت میں ہدایت کی گئی ہے کہ تم اپنی نمازوقت پر ادا کرلو اوربعد میں جماعت سے بھی پڑھ لو تاکہ فتنہ کا وقوع نہ ہو۔ یہ نفل نماز ہوجائے گی۔ مولاناوحیدالزماں صاحب حیدرآبادی نے کیا خوب فرمایاکہ اللہ اکبر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حال تھا تووائے برحال ہمارے زمانے کے اب تو توحیدسے لے کر شروع عبادات تک لوگوں نے نئی باتیں اورنئے اعتقاد تراش لیے ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شان گمان بھی نہ تھا۔ اور اگرکوئی اللہ کا بندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے طریق کے موافق چلتا ہے اس پر طرح طرح کی تہمتیں رکھی جاتی ہیں، کوئی ان کو وہابی کہتاہے کوئی لامذہب کہتاہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔