‌صحيح البخاري - حدیث 53

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ: أَدَاءُ الخُمُسِ مِنَ الإِيمَانِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ يُجْلِسُنِي عَلَى سَرِيرِهِ فَقَالَ: أَقِمْ عِنْدِي حَتَّى أَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي فَأَقَمْتُ مَعَهُ شَهْرَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ القَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ القَوْمُ؟ - أَوْ مَنِ الوَفْدُ؟ -» قَالُوا: رَبِيعَةُ. قَالَ: «مَرْحَبًا بِالقَوْمِ، أَوْ بِالوَفْدِ، غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ نَدَامَى»، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الحَرَامِ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ، نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، وَنَدْخُلْ بِهِ الجَنَّةَ، وَسَأَلُوهُ عَنِ الأَشْرِبَةِ: فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ، وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ: بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ، قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ المَغْنَمِ الخُمُسَ» وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالمُزَفَّتِ ، وَرُبَّمَا قَالَ: «المُقَيَّرِ» وَقَالَ: «احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 53

کتاب: ایمان کے بیان میں باب:مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنا ایمان سے ہے ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انھوں نے ابوجمرہ سے نقل کیا کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھاتے ( ایک دفعہ ) کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا۔ پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے ( یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے ) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے۔ پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انھوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا۔ ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے خدا پر ایمان لاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ ( مسلمانوں کے بیت المال میں ) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا۔ سبز لاکھی مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔
تشریح : یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومذہب السلف فی الایمان من کون الاعمال داخلۃ فی حقیقتہ فانہ قد فسرالاسلام فی حدیث جبرئیل بما فسربہ الایمان فی قصۃ وفدعبدالقیس فدل ہذا علی ان الاشیاءالمذکورۃ وفیہا اداءالخمس من اجزاءالایمان وانہ لا بدفی الایمان من الاعمال خلافا للمرجئۃ۔ ( مرعاۃ،جلد اول،ص: 45 ) یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام ( مذکورہ سابقہ ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفدعبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاءمذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاءایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ ( جو ان کی ضلالت وجہالت کی دلیل ہے ) ۔ جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا توچند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرمادی۔ یادرکھنے کے قابل: یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یادرکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: قال الحافظ وفیہ دلیل علی تقدم اسلام عبدالقیس علی قبائل الذین کانوا بینہم وبین المدینۃ ویدل علی سبقہم الی الاسلام ایضا مارواہ البخاری فی الجمعۃ عن ابن عباس قال ان اول جمعۃ جمعت بعدجمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البحرین وانما جمعوا بعدرجوع وفدہم الیہم فدل علی انہم سبقوا جمیع القریٰ الی الاسلام انتہی واحفظہ فانہ ینفعک فی مسئلۃ الجمعۃ فی القریٰ۔ ( مرعاۃ،جلد: اول،ص: 44 ) یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جوبحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انھوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔ یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومذہب السلف فی الایمان من کون الاعمال داخلۃ فی حقیقتہ فانہ قد فسرالاسلام فی حدیث جبرئیل بما فسربہ الایمان فی قصۃ وفدعبدالقیس فدل ہذا علی ان الاشیاءالمذکورۃ وفیہا اداءالخمس من اجزاءالایمان وانہ لا بدفی الایمان من الاعمال خلافا للمرجئۃ۔ ( مرعاۃ،جلد اول،ص: 45 ) یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام ( مذکورہ سابقہ ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفدعبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاءمذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاءایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ ( جو ان کی ضلالت وجہالت کی دلیل ہے ) ۔ جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا توچند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرمادی۔ یادرکھنے کے قابل: یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یادرکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: قال الحافظ وفیہ دلیل علی تقدم اسلام عبدالقیس علی قبائل الذین کانوا بینہم وبین المدینۃ ویدل علی سبقہم الی الاسلام ایضا مارواہ البخاری فی الجمعۃ عن ابن عباس قال ان اول جمعۃ جمعت بعدجمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البحرین وانما جمعوا بعدرجوع وفدہم الیہم فدل علی انہم سبقوا جمیع القریٰ الی الاسلام انتہی واحفظہ فانہ ینفعک فی مسئلۃ الجمعۃ فی القریٰ۔ ( مرعاۃ،جلد: اول،ص: 44 ) یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جوبحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انھوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔