كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ الإِشَارَةِ فِي الطَّلاَقِ وَالأُمُورِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ نِدَاءُ بِلاَلٍ - أَوْ قَالَ أَذَانُهُ - مِنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّمَا يُنَادِي - أَوْ قَالَ يُؤَذِّنُ - لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ - كَأَنَّهُ يَعْنِي - الصُّبْحَ أَوِ الفَجْرَ» وَأَظْهَرَ يَزِيدُ يَدَيْهِ، ثُمَّ مَدَّ إِحْدَاهُمَا مِنَ الأُخْرَى
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے ؟ ہم سے عبداللہ بن سلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، ان سے سلیمان تیمی نے ، ان سے ابو عثمان نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم میں سے کسی کو ( سحری کھانے سے ) بلال کی پکار نہ روکے ، یا آپ نے فرمایا کہ ” ان کی اذان “ کیونکہ وہ پکارتے ہیں ، یا فرمایا ، اذان دیتے ہیں تاکہ اس وقت نماز پڑھنے والا رک جائے ۔ اس کا اعلان سے یہ مقصود نہیں ہوتا کہ صبح صادق ہو گئی ۔ اس وقت یزید بن زریع نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے ( صبح کاذب کی صورت بتانے کے لیے ) پھر ایک ہاتھ کو دوسرے پر پھیلایا ( صبح صادق کی صورت کے اظہار کے لیے