كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ الطَّلاَقِ فِي الإِغْلاَقِ وَالكُرْهِ، وَالسَّكْرَانِ وَالمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالغَلَطِ وَالنِّسْيَانِ فِي الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَيْرِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ» قَالَ قَتَادَةُ: «إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: زبردستی اور جبراً طلاق دینے کا حکم
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے زرارہ بن اوفٰی نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خیالات فاسدہ کی حد تک معاف کیا ہے ، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کرے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دے دی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا جب تک زبان سے نہ کہے ۔
تشریح :
ہوا یہ کہ ایک دیوانی عورت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کرآئے ، اس کو زنا سے حمل رہ گیا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا ۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا الم تعلم ان القلم رفع عن ثلاثۃ الخ، جس پر ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لولا علی لھلک عمر اللہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے نفسی وحق پژوہی۔ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور گراں مہر باندھنے سے منع کر رہے تھے، ایک عورت نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی واٰتیتم احداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا ( النساء: 20 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر فرمایا کہ عمر سے بڑھ کر سب لوگ سمجھدار ہیں، یہاں تک کہ عورتیں بچے بھی عمر سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ کوئی حق شناسی اور انصاف پر وری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سیکھے جہاں کسی نے کوئی معقول بات کہی، یا قرآن یا حدیث سے کوئی معقول بات کہی قرآن یا حدیث سے سند پیش کی انہوں نے فوراً مان لی، سر تسلیم جھکا دیا، کبھی اپنی بات کی پچ نہ کی نہ اپنے علم وفضل پرغرہ کیا اور ہمارے زمانہ میں تو مقلدین بے انصاف کا یہ حال ہے کہ ان کو سینکڑوں احادیث اور آیتیں سناؤ جب بھی نہیں مانتے ، اپنے امام کی پچ کئے جاتے ہیں اور قرآن وحدیث کی تاویل کرتے ہیں۔ کہو اس کی ضرورت ہی کیا آن پڑی ہے، کیا یہ ائمہ کرام پیغمبروں کی طرح معصوم تھے کہ ان کا ہر قول واجب التسلیم ہو۔ پھرہم امام ہی کے قول کی تاویل کیوں نہ کریں کہ شاید ان کا مطلب دوسرا ہوگا یا ان کو یہ حدیث نہ پہنچی ( وحیدی ) اماموں سے غلطی ممکن ہے اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرے وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے، ان کا احترام اپنی جگہ پر ہے۔
ہوا یہ کہ ایک دیوانی عورت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کرآئے ، اس کو زنا سے حمل رہ گیا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا ۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا الم تعلم ان القلم رفع عن ثلاثۃ الخ، جس پر ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لولا علی لھلک عمر اللہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے نفسی وحق پژوہی۔ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور گراں مہر باندھنے سے منع کر رہے تھے، ایک عورت نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی واٰتیتم احداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا ( النساء: 20 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر فرمایا کہ عمر سے بڑھ کر سب لوگ سمجھدار ہیں، یہاں تک کہ عورتیں بچے بھی عمر سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ کوئی حق شناسی اور انصاف پر وری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سیکھے جہاں کسی نے کوئی معقول بات کہی، یا قرآن یا حدیث سے کوئی معقول بات کہی قرآن یا حدیث سے سند پیش کی انہوں نے فوراً مان لی، سر تسلیم جھکا دیا، کبھی اپنی بات کی پچ نہ کی نہ اپنے علم وفضل پرغرہ کیا اور ہمارے زمانہ میں تو مقلدین بے انصاف کا یہ حال ہے کہ ان کو سینکڑوں احادیث اور آیتیں سناؤ جب بھی نہیں مانتے ، اپنے امام کی پچ کئے جاتے ہیں اور قرآن وحدیث کی تاویل کرتے ہیں۔ کہو اس کی ضرورت ہی کیا آن پڑی ہے، کیا یہ ائمہ کرام پیغمبروں کی طرح معصوم تھے کہ ان کا ہر قول واجب التسلیم ہو۔ پھرہم امام ہی کے قول کی تاویل کیوں نہ کریں کہ شاید ان کا مطلب دوسرا ہوگا یا ان کو یہ حدیث نہ پہنچی ( وحیدی ) اماموں سے غلطی ممکن ہے اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرے وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے، ان کا احترام اپنی جگہ پر ہے۔