‌صحيح البخاري - حدیث 5267

كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} [التحريم: 1] صحيح حَدَّثَنِي الحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ: أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: «لاَ، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ» فَنَزَلَتْ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} [التحريم: 1]- إِلَى - {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ} [التحريم: 4] لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ: {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ} [التحريم: 3] لِقَوْلِهِ: «بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5267

کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان باب: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ” اے پیغمبر ! جو چیز اللہ نے تیرے لیے حلال کی ہے اسے تو اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے “ مجھ سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا ، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے ، ان سے ابن جریج نے کہ عطاءبن ابی رباح نے یقین کے ساتھ کہا کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے ۔ چنانچہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہ نے مل کر صلاح کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آنحضرت سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر ( ایک خاص قسم کے بد بودار گوند ) کی آتی ہے ، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ہم میں سے ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ےہاں شہد پیا ہے ، اب دوبارہ نہیں پیوں گا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی ! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے ” تا “ ان تتوبا الی اللہ ، یہ حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کی طرف خطاب ہے ۔ واذ اسر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا میں حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے ۔
تشریح : یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں عورت کے حرام کرنے میں کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ انہوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کردیا کہ یہ آیت شہد کے حرام کر لینے میں اتری ہے نہ کہ عورت کے حرام کر لینے میں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑے میں سے کوئی بد بو آئے ۔ آپ انتہائی نفاست پسند تھے ۔ ہمیشہ خوشبو میں معطر رہتے تھے۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ شہد پینا چھوڑ کر اس دن سے زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرنا چھوڑ دیں۔ یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں عورت کے حرام کرنے میں کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ انہوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کردیا کہ یہ آیت شہد کے حرام کر لینے میں اتری ہے نہ کہ عورت کے حرام کر لینے میں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑے میں سے کوئی بد بو آئے ۔ آپ انتہائی نفاست پسند تھے ۔ ہمیشہ خوشبو میں معطر رہتے تھے۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ شہد پینا چھوڑ کر اس دن سے زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرنا چھوڑ دیں۔