كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ مَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ صحيح وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ، إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلاَثًا، قَالَ: «لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلاَثًا حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو ” مجھ پر حرام ہے “
اور لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر ایسے شخص کا مسئلہ پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوتی ، تو وہ کہتے اگر تو ایک بار یا دو بار طلاق دیتا تو رجوع کر سکتا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا تھا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دی تو وہ عورت اب تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ وہ تیرے سوا اورکسی شخص سے نکاح کرے ۔
تشریح :
امام حسن بصری رحمہ اللہ کے فتویٰ کی روایت کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کی نیت اگر طلاق کی ہوگی تو طلاق ہوجا ئے گی۔ اگر ظہار کی نیت ہوگی تو ظہار ہو جائے گا۔ حنفیہ کہتے ہیں اگر ایک طلاق یا دو طلاق کی نیت کرے تو ایک طلاق بائن پڑے گی اگر طلاق کی نیت نہ کرے تو وہ ایلاءہوگا ۔ امام ابو ثور اور اوزاعی نے کہا ایسے کہنے سے قسم کا کفارہ دے۔ بعضو ں نے کہا ظہار کا کفارہ دے، مالکیہ کہتے ہیں ایسا کہنے سے تین طلاق پڑ جائیں گی۔ بعض کہتے ہیں کہ ایسا کہنا لغو ہے اور اس میں کچھ لازم نہ آئے گا۔ غرض اس مسئلہ میں قرطبی نے سلف کے اٹھارہ قول نقل کئے ہیں تو رخصت کے لفظ سے طلاق مراد نہیں رکھی ۔ مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ صریح طلاق وہی ہے جس میں طلاق کا لفظ ہو یا اس کا مشتق مثلاً انت مطلقۃ یا طلقتک یا انت طالق یا علیک الطلاق باقی الفاظ جیسے فراق تسریح خلیہ بریہ وغیرہ ان سے طلاق جب ہی پڑے گی کہ خاوند کی نیت طلاق کی ہو کیونکہ ان الفاظ کے معنی سوا طلاق کے اور بھی آئے ہیں جیسے سورہ احزاب کی اس آیت میں یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نکحتم المومنٰت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدو نھا فمتعوھن وسرحوھن سراحا جمیلا ( الاحزاب : 49 ) یہاں تسریح سے رخصت کرنا مراد ہے نہ کہ طلاق دینا کیونکہ طلاق کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے اور غیر مدخولہ عورت ایک ہی طلاق سے بائن ہو جاتی ہے، دوسری طلاق کا محل کہاں ہے۔ خلاصہ یہ ہے آیت میں تسریح اور فارقوھن سے طلاق مراد نہیں ہے کیونکہ طلاق کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ ( وحیدی
امام حسن بصری رحمہ اللہ کے فتویٰ کی روایت کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کی نیت اگر طلاق کی ہوگی تو طلاق ہوجا ئے گی۔ اگر ظہار کی نیت ہوگی تو ظہار ہو جائے گا۔ حنفیہ کہتے ہیں اگر ایک طلاق یا دو طلاق کی نیت کرے تو ایک طلاق بائن پڑے گی اگر طلاق کی نیت نہ کرے تو وہ ایلاءہوگا ۔ امام ابو ثور اور اوزاعی نے کہا ایسے کہنے سے قسم کا کفارہ دے۔ بعضو ں نے کہا ظہار کا کفارہ دے، مالکیہ کہتے ہیں ایسا کہنے سے تین طلاق پڑ جائیں گی۔ بعض کہتے ہیں کہ ایسا کہنا لغو ہے اور اس میں کچھ لازم نہ آئے گا۔ غرض اس مسئلہ میں قرطبی نے سلف کے اٹھارہ قول نقل کئے ہیں تو رخصت کے لفظ سے طلاق مراد نہیں رکھی ۔ مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ صریح طلاق وہی ہے جس میں طلاق کا لفظ ہو یا اس کا مشتق مثلاً انت مطلقۃ یا طلقتک یا انت طالق یا علیک الطلاق باقی الفاظ جیسے فراق تسریح خلیہ بریہ وغیرہ ان سے طلاق جب ہی پڑے گی کہ خاوند کی نیت طلاق کی ہو کیونکہ ان الفاظ کے معنی سوا طلاق کے اور بھی آئے ہیں جیسے سورہ احزاب کی اس آیت میں یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نکحتم المومنٰت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدو نھا فمتعوھن وسرحوھن سراحا جمیلا ( الاحزاب : 49 ) یہاں تسریح سے رخصت کرنا مراد ہے نہ کہ طلاق دینا کیونکہ طلاق کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے اور غیر مدخولہ عورت ایک ہی طلاق سے بائن ہو جاتی ہے، دوسری طلاق کا محل کہاں ہے۔ خلاصہ یہ ہے آیت میں تسریح اور فارقوھن سے طلاق مراد نہیں ہے کیونکہ طلاق کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ ( وحیدی