كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا العَجْلاَنِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا» قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةَ المُتَلاَعِنَيْنِ»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: اگر کسی نے تین طلاق دے دیں
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے اور انہیں سہل بن سعد سا عدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ عویمر العجانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم ! تمہارا کیا خیال ہے ، اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو دیکھے تو کیا اسے وہ قتل کر سکتا ہے ؟ لیکن پھر تم قصاص میں اسے ( شوہر کو ) بھی قتل کردوگے یا پھر وہ کیا کرے گا ؟ عاصم میرے لیے یہ مسئلہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ دیجئے ۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات عاصم رضی اللہ عنہ پر گراں گزرے اور جب وہ واپس اپنے گھر آگئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے آکر ان سے پوچھا کہ بتایئے آپ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ؟ عاصم نے اس پر کہا تم نے مجھ کو آفت میں ڈالا ۔ جو سوال تم نے پوچھا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا ۔ عویمر نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ مسئلہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر میں باز نہیں آؤں گا ۔ چنانچہ وہ روانہ ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان میں تشریف رکھتے تھے ۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پالیتا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ اسے قتل کردے ؟ لیکن اس صورت میں آپ اسے قتل کردیں گے یا پھر اسے کیا کرنا چاہیے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے ، اس لیے تم جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لاؤ ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر دونوں ( میاں بیوی ) نے لعان کیا ۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت موجود تھا ۔ لعان سے جب دونوں فارغ ہوئے تو حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر اس کے بعد بھی میں اسے اپنے پاس رکھوں تو ( اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ) میں جھوٹا ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاق دی ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والے کے لیے یہی طریقہ جاری ہو گیا ۔
تشریح :
کہ لعان کے بعد وہ مل کر نہیں رہ سکتے بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوجا تے ہیں۔ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں تین طلاق اکٹھا دے دے تب بھی تینوں پڑجاتی ہیں۔ اہلحدیث یہ جواب دیتے ہیں کہ عویمر رضی اللہ عنہ نے نادانی سے یہ فعل کیا کیونکہ اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ خود لعان سے مرد اور عورت میں جدائی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار اس وجہ سے نہیں کی کہ وہ عورت اب اس کی عورت نہ رہی تھی تو تین طلاق کیا اگر ہزار طلاق دیتا تب بھی بیکار تھی۔ ہاں اگر لعان نہ ہوا ہوتا تو آپ ضرور اس پر انکار کرتے اور فرماتے کہ ایک ہی طلاق پڑی ہے جیسے محمود بن لبید نے روایت کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ ایک مرد نے اپنی عورت کو تین اکٹھی طلاق دے دی ہیں۔ آپ غصہ ہوئے اور فرمایا کیا کتاب اللہ سے کھیل کرتے ہو، ابھی میں تم میں موجود ہوں تو یہ حال ہے۔ اس کو نسائی نے نکالا اس کے راوی ثقہ ہیں۔
کہ لعان کے بعد وہ مل کر نہیں رہ سکتے بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوجا تے ہیں۔ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں تین طلاق اکٹھا دے دے تب بھی تینوں پڑجاتی ہیں۔ اہلحدیث یہ جواب دیتے ہیں کہ عویمر رضی اللہ عنہ نے نادانی سے یہ فعل کیا کیونکہ اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ خود لعان سے مرد اور عورت میں جدائی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار اس وجہ سے نہیں کی کہ وہ عورت اب اس کی عورت نہ رہی تھی تو تین طلاق کیا اگر ہزار طلاق دیتا تب بھی بیکار تھی۔ ہاں اگر لعان نہ ہوا ہوتا تو آپ ضرور اس پر انکار کرتے اور فرماتے کہ ایک ہی طلاق پڑی ہے جیسے محمود بن لبید نے روایت کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ ایک مرد نے اپنی عورت کو تین اکٹھی طلاق دے دی ہیں۔ آپ غصہ ہوئے اور فرمایا کیا کتاب اللہ سے کھیل کرتے ہو، ابھی میں تم میں موجود ہوں تو یہ حال ہے۔ اس کو نسائی نے نکالا اس کے راوی ثقہ ہیں۔