كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ إِذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِكَ الطَّلاَقِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ»
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
باب: اگر حائضہ کو طلاق دے دی جائے
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اور ابو معمر عبداللہ بن عمرو منقری نے کہا ( یا ہم سے بیان کیا ) کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے ، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے ، انہوں نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ، انہوں نے کہا یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی ۔
تشریح :
یعنی اس کے بعد دو ہی طلاقوں کا اور اختیار رہا۔ ائمہ اربعہ اور جمہورفقہاءنے اسی سے دلیل لی ہے اوریہ کہا ہے کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہوگی تو اب اس کے وقوع میں کیا شک رہا۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شمار کئے جانے کا حکم دیا ۔ میں ( وحیدالزماں ) کہتا ہوں کہ سعید بن جبیر نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت کی اور ابو الزبیر نے اس کے خلاف روایت کی ۔ اس کو ابوداؤد وغیرہ نے نکالا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو کوئی چیز نہیں سمجھا اور شعبی نے کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک یہ طلاق شمار نہ ہو گی۔ اس کو عبدالبر نے نکالا اور ابن حزم نے باسناد صحیح نافع سے، انہوںنے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نکالا کہ اس طلاق کا شمار نہ ہوگا اور سعید بن منصور نے عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی نکالا کہ انہوں نے اپنی عورت کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طلاق کو ئی چیز نہیں ہے۔ حافظ نے کہا یہ سب روایتیں ابو الزبیر کی روایت کی تائید کرتی ہیں اور ابوالزبیر کی روایت صحیح ہے۔ اس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے۔ اب خطابی اور قسطلانی وغیرہ کا یہ کہنا کہ ابو الزبیر کی روایت منکر ہے قابل قبول نہ ہوگی اور امام شافعی کا یہ کہنا کہ نافع ابو الزبیر سے زیادہ ثقہ ہے اور نافع کی روایت یہ ہے کہ اس طلاق کا شمار ہوگا صحیح نہیں کیونکہ ابن حزم نے خود نافع ہی کے طریق سے ابوالزبیر کے موافق نکالا ہے۔ ( وحیدی
یعنی اس کے بعد دو ہی طلاقوں کا اور اختیار رہا۔ ائمہ اربعہ اور جمہورفقہاءنے اسی سے دلیل لی ہے اوریہ کہا ہے کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہوگی تو اب اس کے وقوع میں کیا شک رہا۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شمار کئے جانے کا حکم دیا ۔ میں ( وحیدالزماں ) کہتا ہوں کہ سعید بن جبیر نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت کی اور ابو الزبیر نے اس کے خلاف روایت کی ۔ اس کو ابوداؤد وغیرہ نے نکالا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو کوئی چیز نہیں سمجھا اور شعبی نے کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک یہ طلاق شمار نہ ہو گی۔ اس کو عبدالبر نے نکالا اور ابن حزم نے باسناد صحیح نافع سے، انہوںنے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نکالا کہ اس طلاق کا شمار نہ ہوگا اور سعید بن منصور نے عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی نکالا کہ انہوں نے اپنی عورت کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طلاق کو ئی چیز نہیں ہے۔ حافظ نے کہا یہ سب روایتیں ابو الزبیر کی روایت کی تائید کرتی ہیں اور ابوالزبیر کی روایت صحیح ہے۔ اس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے۔ اب خطابی اور قسطلانی وغیرہ کا یہ کہنا کہ ابو الزبیر کی روایت منکر ہے قابل قبول نہ ہوگی اور امام شافعی کا یہ کہنا کہ نافع ابو الزبیر سے زیادہ ثقہ ہے اور نافع کی روایت یہ ہے کہ اس طلاق کا شمار ہوگا صحیح نہیں کیونکہ ابن حزم نے خود نافع ہی کے طریق سے ابوالزبیر کے موافق نکالا ہے۔ ( وحیدی