كِتَابُ النِّكَاحِ لاَ تُبَاشِرِ المَرْأَةُ المَرْأَةَ فَتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ فَتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
باب: ایک عورت دوسری عورت سے نہ چمٹے۔۔۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بیان کیا ، ان سے منصور بن معتمر نے ، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عورت کسی عورت سے ملنے کے بعد اپنے شوہر سے اس کا حلیہ نہ بیان کرے ، گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔
تشریح :
حافظ نے کہا اسی طرح مرد کو غیر عورت کے سترکی طرف اور عورت کو غیر مرد کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد بھی دوسرے مرد سے بدن نہ لگائے مگر ضرورت سے اور مصافحہ کے وقت ہاتھوں کا ملانا جائز ہے۔ اسی طرح معانقہ اور بوسہ دینا بھی منع ہے مگر جو سفر سے آئے اس سے معانقہ درست ہے۔ اسی طرح باپ اپنے بچوں کو شفقت کی راہ سے بوسہ دے سکتا ہے۔ کسی صالح شخص کے ہاتھ کو از راہ محبت بوسہ دے سکتے ہیں جیسے صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے لیکن دنیا دار امیر کے ہاتھ کو اس کی مالداری کی وجہ سے بوسہ دینا نا جائز ہے۔ ( وحیدی )
آج کل کے نام نہاد پیر ومشائخ جو اپنے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دلاتے ہیں یہ قطعاً نا جائز ہے۔ ( بوسہ کے متعلق یاد رکھئے کہ پانچ قسم کے بوسے ہوتے ہیں جن کے جواز کی صورتیں صرف یہ ہیں اس کے علاوہ جو بھی صورت ہونا جائز سمجھیں ( 1 ) بنوت کا بوسہ باپ یا ماں اپنی اولاد کو دے۔ ( 2 ) ابوت کا بوسہ اولاد والدین کو دے۔ ( 3 ) مودت کا بوسہ ساتھی ساتھی کو دے یا ہم عمر ہم عمر کو دے۔ ( 4 ) شفقت کا بوسہ بڑا چھوٹے کو دے۔ ان قسموں کا محل ہاتھ یا پیشانی ہے رخسار نہیں۔ ( 5 ) شہوت کا بوسہ خاوند بیوی ایک دوسرے کو دیں۔ ( عبدالرشید تونسوی )
حافظ نے کہا اسی طرح مرد کو غیر عورت کے سترکی طرف اور عورت کو غیر مرد کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد بھی دوسرے مرد سے بدن نہ لگائے مگر ضرورت سے اور مصافحہ کے وقت ہاتھوں کا ملانا جائز ہے۔ اسی طرح معانقہ اور بوسہ دینا بھی منع ہے مگر جو سفر سے آئے اس سے معانقہ درست ہے۔ اسی طرح باپ اپنے بچوں کو شفقت کی راہ سے بوسہ دے سکتا ہے۔ کسی صالح شخص کے ہاتھ کو از راہ محبت بوسہ دے سکتے ہیں جیسے صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے لیکن دنیا دار امیر کے ہاتھ کو اس کی مالداری کی وجہ سے بوسہ دینا نا جائز ہے۔ ( وحیدی )
آج کل کے نام نہاد پیر ومشائخ جو اپنے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دلاتے ہیں یہ قطعاً نا جائز ہے۔ ( بوسہ کے متعلق یاد رکھئے کہ پانچ قسم کے بوسے ہوتے ہیں جن کے جواز کی صورتیں صرف یہ ہیں اس کے علاوہ جو بھی صورت ہونا جائز سمجھیں ( 1 ) بنوت کا بوسہ باپ یا ماں اپنی اولاد کو دے۔ ( 2 ) ابوت کا بوسہ اولاد والدین کو دے۔ ( 3 ) مودت کا بوسہ ساتھی ساتھی کو دے یا ہم عمر ہم عمر کو دے۔ ( 4 ) شفقت کا بوسہ بڑا چھوٹے کو دے۔ ان قسموں کا محل ہاتھ یا پیشانی ہے رخسار نہیں۔ ( 5 ) شہوت کا بوسہ خاوند بیوی ایک دوسرے کو دیں۔ ( عبدالرشید تونسوی )