‌صحيح البخاري - حدیث 520

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ المَرْأَةِ تَطْرَحُ عَنِ المُصَلِّي، شَيْئًا مِنَ الأَذَى صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّورَمَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي عِنْدَ الكَعْبَةِ وَجَمْعُ قُرَيْشٍ فِي مَجَالِسِهِمْ، إِذْ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَلاَ تَنْظُرُونَ إِلَى هَذَا المُرَائِي أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى جَزُورِ آلِ فُلاَنٍ، فَيَعْمِدُ إِلَى فَرْثِهَا وَدَمِهَا وَسَلاَهَا، فَيَجِيءُ بِهِ، ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى إِذَا سَجَدَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَانْبَعَثَ أَشْقَاهُمْ، فَلَمَّا سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ؟ وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا، فَضَحِكُوا حَتَّى مَالَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ مِنَ الضَّحِكِ، فَانْطَلَقَ مُنْطَلِقٌ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ - وَهِيَ جُوَيْرِيَةٌ -، فَأَقْبَلَتْ تَسْعَى وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا حَتَّى أَلْقَتْهُ عَنْهُ، وَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَسُبُّهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاَةَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ»، ثُمَّ سَمَّى: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بْنِ الوَلِيدِ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ، ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى القَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القَلِيبِ لَعْنَةً»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 520

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: عورت نماز پڑھنے والے سے گندگی ہٹا دے ہم سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش اپنی مجلس میں ( قریب ہی ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ پھر یہاں انتظار کرے۔ جب یہ ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے ( چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے۔ مشرکین ( یہ دیکھ کر ) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ ایک شخص ( غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ وہ ابھی بچہ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ دوڑتی ہوئی آئیں۔ حضور رضی اللہ عنہ اب بھی سجدہ ہی میں تھے۔ پھر ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ) ان غلاظتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر کے فرمایا “ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ ” پھر نام لے کر کہا خدایا! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، خدا کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا۔ پھر انھیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنویں والے خدا کی رحمت سے دور کر دئیے گئے۔
تشریح : ابتدائے اسلام میں جو کچھ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتاؤ کیا۔ اسی میں سے ایک یہ واقعہ بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خدا نے قبول کی اوروہ بدبخت سب کے سب بدرکی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اورہمیشہ کے لیے خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے موقع پر اگرکوئی بھی عورت نمازی کے اوپر سے گندگی اٹھاکر دورکردے تواس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرقرائن سے کفار کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی حرکات بد سے باز نہیں آئیں گے تو ان کے لیے بددعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ ایسے بدبختوں کا نام لے کر بددعا کی جاسکتی ہے کہ مومن کایہی آخری ہتھیارسے۔ وہ غلاظت لانے والا عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا۔ الحمدللہ کہ عاشورہ محرم 1388ھ میں اس مبارک کتاب کے پارہ دوم کے ترجمہ اورتحشیہ سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک میری قلمی لغزشوں کو معاف فرماکر اسے قبول کرے اور میرے لیے، میرے والدین،اولاد، احباب کے لیے، جملہ معاونین کرام اورناظرین عظام کے لیے وسیلہ نجات بنائے۔ اوربقایا پاروں کو بھی اپنی غیبی امداد سے پورا کرائے۔ آمین۔ والحمدللہ رب العالمین۔ ( مترجم ) ابتدائے اسلام میں جو کچھ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتاؤ کیا۔ اسی میں سے ایک یہ واقعہ بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خدا نے قبول کی اوروہ بدبخت سب کے سب بدرکی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اورہمیشہ کے لیے خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے موقع پر اگرکوئی بھی عورت نمازی کے اوپر سے گندگی اٹھاکر دورکردے تواس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرقرائن سے کفار کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی حرکات بد سے باز نہیں آئیں گے تو ان کے لیے بددعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ ایسے بدبختوں کا نام لے کر بددعا کی جاسکتی ہے کہ مومن کایہی آخری ہتھیارسے۔ وہ غلاظت لانے والا عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا۔ الحمدللہ کہ عاشورہ محرم 1388ھ میں اس مبارک کتاب کے پارہ دوم کے ترجمہ اورتحشیہ سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک میری قلمی لغزشوں کو معاف فرماکر اسے قبول کرے اور میرے لیے، میرے والدین،اولاد، احباب کے لیے، جملہ معاونین کرام اورناظرین عظام کے لیے وسیلہ نجات بنائے۔ اوربقایا پاروں کو بھی اپنی غیبی امداد سے پورا کرائے۔ آمین۔ والحمدللہ رب العالمین۔ ( مترجم )