كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حُسْنِ المُعَاشَرَةِ مَعَ الأَهْلِ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا قَالَتْ الْأُولَى زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ لَا سَهْلٍ فَيُرْتَقَى وَلَا سَمِينٍ فَيُنْتَقَلُ قَالَتْ الثَّانِيَةُ زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا أَذَرَهُ إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتْ الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَإِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ قَالَتْ الرَّابِعَةُ زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ لَا حَرٌّ وَلَا قُرٌّ وَلَا مَخَافَةَ وَلَا سَآمَةَ قَالَتْ الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتْ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَإِنْ اضْطَجَعَ الْتَفَّ وَلَا يُولِجُ الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتْ السَّابِعَةُ زَوْجِي غَيَايَاءُ أَوْ عَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ شَجَّكِ أَوْ فَلَّكِ أَوْ جَمَعَ كُلًّا لَكِ قَالَتْ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ وَالرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ قَالَتْ التَّاسِعَةُ زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنْ النَّادِ قَالَتْ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِكٌ وَمَا مَالِكٌ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكِ لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ وَإِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ قَالَتْ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ وَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي فَبَجِحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُكُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجَعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا وَمِلْءُ كِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا رَكِبَ شَرِيًّا وَأَخَذَ خَطِّيًّا وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا وَقَالَ كُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَكِ قَالَتْ فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ أَعْطَانِيهِ مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامٍ وَلَا تُعَشِّشُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ فَأَتَقَمَّحُ بِالْمِيمِ وَهَذَا أَصَحُّ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
باب: اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنا
ہم سے سلیمان بن عبد الرحمن اور علی بن حجر نے بیان کیا ، ان دونوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبردی ، اس نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، انہوں نے اپنے بھائی عبد اللہ بن عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے ، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں ۔ چنانچہ پہلی عورت ( نام نامعلوم ) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جوپہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہواہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لئے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے ۔ ۱ دوسری عورت ( عمرہ بنت عمر و تمیمی نامی ) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہا ں تک بیان کروں ( اس میں اتنے عیب ہیں ) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کرسکوں گی ۲ اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کرسکتی ہوں ۔ ۳ تیسری عورت ( حیی بنت کعب یمانی ) کہنے لگی ، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ ( لمبا تڑنگا ) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں ۔ ۴ چوتھی عورت ( مہدوبنت ابی ہرومہ ) کہنے لگی کہ میراخاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتا ہٹ ہے ۔ پانچوں عورت ( کبشہ نامی ) کہنے لگی کہ میر ا خاوند ایساہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے ۵ اور جب باہر نکلتاہے تو شیر ( بہادر ) کی طرح ہے ۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں ( کہ وہ کہاں گئی ؟ ) اتنا بے پرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لئے اٹھاکر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے ۔ چھٹی عورت ( ہند نامی ) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتاہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑکر سوجا تا ہے میرے کپڑے مےں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تومعلوم کرے ۔ ۶ ساتویں عورت ( حیی بنت علقمہ ) میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے ۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑجاتاہے ۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کرکے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں ( کم بخت سے بات کروں تو ) سر پھوڑڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کا م کرڈالے ۔ ۷ آٹھویں عورت ( یاسر بنت اوس ) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیساخوشبو دار ہے ۔ ۸ نویں عورت ( نام نامعلوم ) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچااور بلند ہے وہ قد آور بہادر ہے ، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں ۔ ( غریبوں کو خوب کھلاتا ہے ) لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لئے بیٹھتے ہیں ( یعنی پنچائت گھر ) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے ۔ ۹ دسویں عورت ( کبشہ بنت رافع ) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھناجائداد والا ہے ، جائداد بھی کیسی بڑی جائداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہوسکتی بہت سارے اونٹ جو جابجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں ۔ ۰۱ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آوازسنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہوگیا ۱۱ گیارھویں عورت ( ام زرع بنت اکیمل بنت ساعدہ ) کہنے لگی میرا خاوند ابو زرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کردیاہے اور میرے دونوں بازوچربی سے پھلادئےے ہیں مجھے خوب کھلاکر موٹا کردیاہے کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں ۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی ۔ ابو زرعہ نے مجھ کو گھوڑوں ، اونٹوں ، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیاہے اتنی بہت جائداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا ۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیںجگاتا ۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہوکر پی لوں رہی ابوزرعہ کی ماں ( میری ساس ) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں اس کا توشہ کھانا مال واسباب سے بھراہوا ، اس کا گھر بہت ہی کشادہ ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت ( نازک بدن دبلا پتلا ) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ۲۱ ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کا دست کا گوشت اس کا پیٹ بھردے ۔ ابو زرعہ کی بےٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری ، اپنی ماں کی پیاری ( تابع فرمان اطاعت گزار ) کپڑا بھر پورپہننے والی ( موٹی تازی ) سوکن کی جلن۳۱ ابو زرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی ( گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے ) کھانے تک نہیں چراتی گھر میں کوڑا کچڑا نہیں چھوڑتی ۴۱ مگر ایک دن ایسا ہواکہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ متھ رہے تھے ۔ ( صبح ہی صبح ) ابو زرعہ باہر گیااچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دوبچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دواناروں سے کھیل رہے تھے ( مراد اس کی دونو ں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں ) ابو زرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کرلیا ۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کرلیا جو گھوڑے کا اچھا سوار ، عمدہ نیزہ باز ہے ، اس نے بھی مجھ کو بہت سے جانور دے دئےے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑ ا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع ! خوب کھا پی ، اپنے عزیز واقرباءکو بھی خوب کھلا پلاتیرے لئے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میںنے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابو زرعہ نے جوتجھ کو دیا تھا ، اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے ۔
تشریح :
یعنی ابوزرعہ کے مال کے سامنے یہ سارا مال بے حقیقت ہے مگر میں تجھ کو ابو زرعہ کی طرح طلاق دینے والا نہیں ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سارا قصہ سنا نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) ! میں بھی تیرے لئے ایسا خاوند ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لئے تھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا حضرت سعید بن سلمہ نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے اس میں لونڈی کے ذکر میں الفاظ ولا تملا بیتنا تعشیشا کی جگہ ولاتعشش بیتنا تعشیشا کے لفظ ہیں ( معنی وہی ہیں کہ وہ لو نڈی ہمارے گھر میں کوڑ ا کچڑا رکھ کر اسے میلا کچیلا نہیں کرتی۔ بعضوںنے اسے لفظ عنیق سے پڑھا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوںگے کہ وہ ہم سے کبھی دغا فریب نہیں کرتی ) نیز حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہاکہ ( الفاظ واشرب فاتفخ میں ) بعض لوگوں نے فاتقمح میم کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
1 مطلب یہ کہ اس کاخاوند بخیل ہے جس سے کچھ فائدے کی امید نہیں دوسرے یہ کہ وہ بد خلق آدمی ہے محض بیکار۔
2 یا میں ڈرتی ہوں کہ میرے خاوند کو کہیں خبر نہ ہوجائے اور وہ مجھے طلاق دے دے جبکہ میں اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتی۔
3مگر میرے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
4نہ طلاق ملے کہ دوسرا خاوند کرلوں نہ اس خاوند سے کوئی سکھ ملنا ہے۔
5یعنی آیا کہ سورہا گھر گر ہستی سے اسے کچھ مطلب نہیں ہے۔ یا تو آتے ہی مجھ پر چڑھ بیٹھتاہے نہ کلمہ نہ کلام نہ بوس وکنار۔
6مطلب یہ ہے کہ بڑا پیٹو ہے مگر میرے لئے نکما۔
7یعنی اول تو شہوت کم ، عورت کا مطلب پورا نہیں کرتا اس پر بدخوکہ بات کرو تو کاٹ کھانے پر موجود ، مارنے کو ٹنے پر تیار۔
8 زعفران کا ترجمہ ویسے بامحاورہ کردیا ورنہ زرنب ایک درخت کا چھلکا ہے جو زعفران کی طرح خوشبودار اور رنگ دار ہوتا ہے۔ اس نے اپنے خاوند کی تعریف کی کہ ظاہر ی اور باطنی اس کے دونوں اخلاق بہت اچھے ہیں۔
9 اس لئے ایسے لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لئے بلاتے ہیں وہاں اس کی رائے پر عمل کرتے ہیں۔
10تاکہ مہمان لوگ آئیں تو ان کا گوشت اور دودھ ان کو تیار ملے۔
11 یہ باجا مہمانوں کے آنے پر خوشی سے بجایا جاتا تھاکہ اونٹ سمجھ جاتے کہ اب ہم مہمانوں کے لئے کاٹے جائیں گے۔
12 یعنی چھریرے جسم والا نازک کمر والا جو سوتے وقت بستر پر ٹکتی ہے۔
13کہ سوکن اس کی خوبصورتی اور ادب ولیاقت پر رشک کرکے جلی جاتی ہے۔
14ہمیشہ گھر کو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا رکھتی ہے الغرض سارا گھر نور علیٰ نور ہے۔ ابو زرعہ سے لے کر اس کی ماں بیٹی بیٹا لونڈی باندی سب فرد فرید ہیں۔
یعنی ابوزرعہ کے مال کے سامنے یہ سارا مال بے حقیقت ہے مگر میں تجھ کو ابو زرعہ کی طرح طلاق دینے والا نہیں ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سارا قصہ سنا نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) ! میں بھی تیرے لئے ایسا خاوند ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لئے تھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا حضرت سعید بن سلمہ نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے اس میں لونڈی کے ذکر میں الفاظ ولا تملا بیتنا تعشیشا کی جگہ ولاتعشش بیتنا تعشیشا کے لفظ ہیں ( معنی وہی ہیں کہ وہ لو نڈی ہمارے گھر میں کوڑ ا کچڑا رکھ کر اسے میلا کچیلا نہیں کرتی۔ بعضوںنے اسے لفظ عنیق سے پڑھا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوںگے کہ وہ ہم سے کبھی دغا فریب نہیں کرتی ) نیز حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہاکہ ( الفاظ واشرب فاتفخ میں ) بعض لوگوں نے فاتقمح میم کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
1 مطلب یہ کہ اس کاخاوند بخیل ہے جس سے کچھ فائدے کی امید نہیں دوسرے یہ کہ وہ بد خلق آدمی ہے محض بیکار۔
2 یا میں ڈرتی ہوں کہ میرے خاوند کو کہیں خبر نہ ہوجائے اور وہ مجھے طلاق دے دے جبکہ میں اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتی۔
3مگر میرے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
4نہ طلاق ملے کہ دوسرا خاوند کرلوں نہ اس خاوند سے کوئی سکھ ملنا ہے۔
5یعنی آیا کہ سورہا گھر گر ہستی سے اسے کچھ مطلب نہیں ہے۔ یا تو آتے ہی مجھ پر چڑھ بیٹھتاہے نہ کلمہ نہ کلام نہ بوس وکنار۔
6مطلب یہ ہے کہ بڑا پیٹو ہے مگر میرے لئے نکما۔
7یعنی اول تو شہوت کم ، عورت کا مطلب پورا نہیں کرتا اس پر بدخوکہ بات کرو تو کاٹ کھانے پر موجود ، مارنے کو ٹنے پر تیار۔
8 زعفران کا ترجمہ ویسے بامحاورہ کردیا ورنہ زرنب ایک درخت کا چھلکا ہے جو زعفران کی طرح خوشبودار اور رنگ دار ہوتا ہے۔ اس نے اپنے خاوند کی تعریف کی کہ ظاہر ی اور باطنی اس کے دونوں اخلاق بہت اچھے ہیں۔
9 اس لئے ایسے لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لئے بلاتے ہیں وہاں اس کی رائے پر عمل کرتے ہیں۔
10تاکہ مہمان لوگ آئیں تو ان کا گوشت اور دودھ ان کو تیار ملے۔
11 یہ باجا مہمانوں کے آنے پر خوشی سے بجایا جاتا تھاکہ اونٹ سمجھ جاتے کہ اب ہم مہمانوں کے لئے کاٹے جائیں گے۔
12 یعنی چھریرے جسم والا نازک کمر والا جو سوتے وقت بستر پر ٹکتی ہے۔
13کہ سوکن اس کی خوبصورتی اور ادب ولیاقت پر رشک کرکے جلی جاتی ہے۔
14ہمیشہ گھر کو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا رکھتی ہے الغرض سارا گھر نور علیٰ نور ہے۔ ابو زرعہ سے لے کر اس کی ماں بیٹی بیٹا لونڈی باندی سب فرد فرید ہیں۔