كِتَابُ النِّكَاحِ الهَدِيَّةِ لِلْعَرُوسِ صحيح وقال إبراهيم عن أبي عثمان ـ واسمه الجعد ـ عن أنس بن مالك، قال مر بنا في مسجد بني رفاعة فسمعته يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا مر بجنبات أم سليم دخل عليها فسلم عليها، ثم قال كان النبي صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب فقالت لي أم سليم لو أهدينا لرسول الله صلى الله عليه وسلم هدية فقلت لها افعلي. فعمدت إلى تمر وسمن وأقط، فاتخذت حيسة في برمة، فأرسلت بها معي إليه، فانطلقت بها إليه فقال لي ضعها . ثم أمرني فقال ادع لي رجالا ـ سماهم ـ وادع لي من لقيت . قال ففعلت الذي أمرني فرجعت فإذا البيت غاص بأهله، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يديه على تلك الحيسة، وتكلم بها ما شاء الله، ثم جعل يدعو عشرة عشرة، يأكلون منه، ويقول لهم اذكروا اسم الله، وليأكل كل رجل مما يليه . قال حتى تصدعوا كلهم عنها، فخرج منهم من خرج، وبقي نفر يتحدثون قال وجعلت أغتم، ثم خرج النبي صلى الله عليه وسلم نحو الحجرات، وخرجت في إثره فقلت إنهم قد ذهبوا. فرجع فدخل البيت، وأرخى الستر، وإني لفي الحجرة، وهو يقول {يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي فيستحيي منكم والله لا يستحيي من الحق}. قال أبو عثمان قال أنس إنه خدم رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين.
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
باب: دلہن کو تحائف بھیجنا
اور ابراہیم بن طہمان نے ابوعثمان جعدبن دینار سے روایت کیا ، انہوں نے انس بن مالک سے ، ابوعثمان کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ ہمارے سامنے سے بنی رفاعہ کی مسجد میں ( جو بصرہ میں ہے ) گزرے ۔ میں نے ان سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے ، ان کو سلام کرتے ( وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں ) پھر انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے ۔ آپ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکا ح کیا تھا تو ام سلیم ( میری ماں ) مجھ سے کہنے لگیں اس وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے ۔ میں نے کہا مناسب ہے ۔ انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملاکر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا ، میں لے کر آپ کے پاس چلا ، جب پہنچا تو آپ نے فرما یا رکھ دے اور جاکر فلاں فلاں لوگوں کو بلالاآپ نے ان کا نا م لیا اور جو بھی کوئی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا ۔ لوٹ کر جو آ یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونو ں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اورجو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا ( برکت کی دعا فرمائی ) پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لئے بلانا شروع کیا ۔ آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے ۔ ( رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے ) یہا ں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دئےے ۔ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کر تے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا ( اس خیال سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوگی ) آخرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں پر گئے میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آ پ سے کہا اب وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں ۔ اس وقت آپ لوٹے اور ( زینب رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ) آئے ۔ میںبھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میری اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا ۔ آپ سورۃ احزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ۔ ” مسلمانو ! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرومگر جب کھانے کے لئے تم کو اند ر آنے کی اجازت دی جائے اس وقت جا ؤ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر آجاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو ۔ باتوں میں لگ کر وہا ں بیٹھے نہ رہا کرو ، ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی ، اس کو تم سے شرم آتی تھی ( کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ ) اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا ۔ “ ابوعثمان ( جعدی بن دینار ) کہتے تھے کہ انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے
تشریح :
قاضی عیاض نے کہا یہاں یہ اشکا ل ہوتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں تو آپ نے لوگوں کو پیٹ بھر کر گوشت روٹی کھلایا تھا جیسا کہ دوسری روایت میں ہے پھر انہوں نے کیا کھایا۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ کھانا بڑھ گیا تھاتو اس روایت میں راوی کا سہو ہے۔ اس نے ایک قصہ کو دوسرے قصہ پر چسپا ں کردیا ادھر ممکن ہے کہ حلوہ اسی وقت آیا ہو جب لوگ روٹی گوشت کھارہے ہوں تو سب نے یہ حلوہ بھی کھا لیا ہو۔ قرطبی نے کہا شاید ایسا ہو اہو گا کہ روٹی گوشت کھا کر کچھ لوگ چل دئے ہوں گے، صرف تین آدمی ان میں سے بیٹھے رہ گئے ہوں گے جو باتوں میں لگ گئے تھے اتنے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ حلوہ لے کر آئے ہوںگے تو آپ نے ان کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کو بلوا یا وہ بھی کھاکر چل دئیے لیکن یہ تین آدمی بیٹھے کے بیٹھے رہے۔ ان ہی سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اب بھی حکم یہی ہے۔
قاضی عیاض نے کہا یہاں یہ اشکا ل ہوتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں تو آپ نے لوگوں کو پیٹ بھر کر گوشت روٹی کھلایا تھا جیسا کہ دوسری روایت میں ہے پھر انہوں نے کیا کھایا۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ کھانا بڑھ گیا تھاتو اس روایت میں راوی کا سہو ہے۔ اس نے ایک قصہ کو دوسرے قصہ پر چسپا ں کردیا ادھر ممکن ہے کہ حلوہ اسی وقت آیا ہو جب لوگ روٹی گوشت کھارہے ہوں تو سب نے یہ حلوہ بھی کھا لیا ہو۔ قرطبی نے کہا شاید ایسا ہو اہو گا کہ روٹی گوشت کھا کر کچھ لوگ چل دئے ہوں گے، صرف تین آدمی ان میں سے بیٹھے رہ گئے ہوں گے جو باتوں میں لگ گئے تھے اتنے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ حلوہ لے کر آئے ہوںگے تو آپ نے ان کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کو بلوا یا وہ بھی کھاکر چل دئیے لیکن یہ تین آدمی بیٹھے کے بیٹھے رہے۔ ان ہی سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اب بھی حکم یہی ہے۔