كِتَابُ النِّكَاحِ ضَرْبِ الدُّفِّ فِي النِّكَاحِ وَالوَلِيمَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ قَالَ قَالَتْ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حِينَ بُنِيَ عَلَيَّ فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَالَ دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
باب: نکاح اور ولیمہ کی دعوت میں دف بجانا
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا ، کہ ربیع بنت معوذابن عفراء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور میر ے بستر پر بیٹھے اسی طرح جیسے تم اس وقت میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو ۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے باپ اور چچا جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے ، ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں ۔ اتنے میں ان میں سے ایک لڑکی نے پڑھا ، اور ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتو ں کی خبر رکھتا ہے جو کچھ کل ہونے والی ہیں ۔ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو ۔ اس کے سواجو کچھ تم پڑھ رہی تھیں وہ پڑھو ۔
تشریح :
اس لڑکی کو آپ نے ایسا شعر پڑھنے سے منع فرما دیا کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے عالم الغیب صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ قرآن پاک میں صاف اس کی صراحت مذکور ہے۔ مرقاۃ میں ہے کہ وہ دف جو بجارہی تھیں ان میں گھنگروں جیسی آواز نہیں تھی وکان ولھن غیر مصحوب بجلا جل اس سے آج کل کے گانے بجانے پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گانوں بجانوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ایسے تمام گانوں بجانوں کو مٹانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے صلی اللہ علیہ وسلم ، قال فی الفتح وانما انکر علیہا ما ذکر من الاطراءحیث اطلق علم الغیب بہ وھی صفۃ تختص باللہ تعالیٰ یعنی آپ نے اس لڑکی کو اس شعر کے پڑھنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں مبالغہ تھا اور علم الغیب کا اطلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیا گیا تھا حالانکہ یہ ایسی صفت ہے جو اللہ کے ساتھ خاص ہے۔
اس لڑکی کو آپ نے ایسا شعر پڑھنے سے منع فرما دیا کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے عالم الغیب صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ قرآن پاک میں صاف اس کی صراحت مذکور ہے۔ مرقاۃ میں ہے کہ وہ دف جو بجارہی تھیں ان میں گھنگروں جیسی آواز نہیں تھی وکان ولھن غیر مصحوب بجلا جل اس سے آج کل کے گانے بجانے پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گانوں بجانوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ایسے تمام گانوں بجانوں کو مٹانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے صلی اللہ علیہ وسلم ، قال فی الفتح وانما انکر علیہا ما ذکر من الاطراءحیث اطلق علم الغیب بہ وھی صفۃ تختص باللہ تعالیٰ یعنی آپ نے اس لڑکی کو اس شعر کے پڑھنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں مبالغہ تھا اور علم الغیب کا اطلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیا گیا تھا حالانکہ یہ ایسی صفت ہے جو اللہ کے ساتھ خاص ہے۔