‌صحيح البخاري - حدیث 5146

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الخُطْبَةِ صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ جَاءَ رَجُلَانِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ الْبَيَانِ لَسِحْرًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5146

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: عقد سے پہلے ) نکاح کا خطبہ پڑھنا ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے زید بن اسلم نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے ، وہ مسلمان ہوگئے اور خطبہ دیا ، نہایت فصیح و بلیغ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کر تی ہے ۔
تشریح : یہ حدیث لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ نکاح کا خطبہ صاف صاف متوسط تقریر میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ بڑے تکلف اور خوش تقریری کے ساتھ جس سے سامعین پر جادو کا اثر ہو اور خطبہ نکاح کے باب میں صریح حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے جسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے لیکن حضرت امام بخاری رحمہ اللہ شاید اپنی شرط پر نہ ہونے سے اسے نہ لاسکے نکاح کا خطبہ مشہور یہ ہے : الحمدللہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذباللہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھاد ی لہ و اشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ اما بعد اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم یا ایھا الذین امنو ا اتقو اللہ حق تقاتہ ولا تمو تن الا و انتم مسلمون یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھمارجالا کثیرا و نساءواتقوا اللہ الذی تساءلون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیبا۔ یا ایھا الذین امنوا اتقو االلہ و قولو ا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم و یغفر لکم ذنوبکم و من یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزا عظیما تک پڑھ کر پھر قاضی ایجاب و قبول کرائے۔ ( خطبہ میںمذکو رلفظ ونومن ونتو کل علیہ محل نظر ہیں یعنی یہ لفظ سند اًثابت نہیں ہیں۔ اس طرح دوسری آیت جس سے سورۃ نساءکا آغازہوتاہے ، وہ پوری پڑھنی چاہیئے واللہ اعلم بالصواب۔ عبدالرشید تونسوی ) یہ حدیث لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ نکاح کا خطبہ صاف صاف متوسط تقریر میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ بڑے تکلف اور خوش تقریری کے ساتھ جس سے سامعین پر جادو کا اثر ہو اور خطبہ نکاح کے باب میں صریح حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے جسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے لیکن حضرت امام بخاری رحمہ اللہ شاید اپنی شرط پر نہ ہونے سے اسے نہ لاسکے نکاح کا خطبہ مشہور یہ ہے : الحمدللہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذباللہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھاد ی لہ و اشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ اما بعد اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم یا ایھا الذین امنو ا اتقو اللہ حق تقاتہ ولا تمو تن الا و انتم مسلمون یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھمارجالا کثیرا و نساءواتقوا اللہ الذی تساءلون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیبا۔ یا ایھا الذین امنوا اتقو االلہ و قولو ا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم و یغفر لکم ذنوبکم و من یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزا عظیما تک پڑھ کر پھر قاضی ایجاب و قبول کرائے۔ ( خطبہ میںمذکو رلفظ ونومن ونتو کل علیہ محل نظر ہیں یعنی یہ لفظ سند اًثابت نہیں ہیں۔ اس طرح دوسری آیت جس سے سورۃ نساءکا آغازہوتاہے ، وہ پوری پڑھنی چاہیئے واللہ اعلم بالصواب۔ عبدالرشید تونسوی )