‌صحيح البخاري - حدیث 5141

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ إِذَا قَالَ الخَاطِبُ لِلْوَلِيِّ: زَوِّجْنِي فُلاَنَةَ، فَقَالَ: قَدْ زَوَّجْتُكَ بِكَذَا وَكَذَا جَازَ النِّكَاحُ، وَإِنْ لَمْ يَقُلْ لِلزَّوْجِ: أَرَضِيتَ أَوْ قَبِلْتَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَتْ عَلَيْهِ نَفْسَهَا فَقَالَ مَا لِي الْيَوْمَ فِي النِّسَاءِ مِنْ حَاجَةٍ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَوِّجْنِيهَا قَالَ مَا عِنْدَكَ قَالَ مَا عِنْدِي شَيْءٌ قَالَ أَعْطِهَا وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ قَالَ مَا عِنْدِي شَيْءٌ قَالَ فَمَا عِنْدَكَ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5141

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: لڑکی کے ولی سے کہنا میرا نکاح اس لڑکی۔۔۔ ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ابو حازم نے ، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے آپ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے لئے پیش کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ مجھے اب عورت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کردیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس عورت کو کچھ دو خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟ عرض کیا فلاں فلاں سورتیں یا د ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا ۔ اس قرآن کے بدلے جو تم کو یاد ہے ۔
تشریح : اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطور ولی کے تھے۔ آپ سے اس شخص نے اس عورت سے نکاح کردینے کی درخواست کی، آپ نے نکاح کرادیا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ہوگئی۔ مرزا حیرت صاحب مرحوم کی حیرت انگیز جسارت ! حضرت مرزا حیرت صاحب مرحوم نے بھی بخاری شریف کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا مگر بعض بعض جگہ آپ حیر ت انگیز جسارت سے کام لے جاتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے ذیل آپ کی جسارت ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں : ” بخاری اس حدیث سے یہ سمجھ گئے کہ تعلیم قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہر قرار دیا حالانکہ اس سے لازم نہیں آتا۔ بلکہ مہر مؤ جل مقرر کردیا ہوگا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے بزرگی قرآن یاد ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح تجھ سے کر دیا۔ بخاری نے باء کا معنی عوض کے لے کر مسئلہ قائم کردیا حالانکہ باءمسببہ ہے ( صحیح بخاری ، جلد : سوم /ص22 ) مرزا صاحب مرحوم نے حضرت امیر المومنین فی الحدیث کو جس لا ابالی پن سے یاد کیا ہے وہ آپ کی حیرت انگیز جسارت ہے پھر مزید جسارت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کر دینے کی بڑی ہی بھونڈی تصویر پیش کی ہے۔ جس کے صاف الفاظ یہ ہیں ( فقد ملکتکھا بما معک من القرآن ) تجھ کو جو قرآن زبانی یاد ہے اس کے عوض اس عورت کا میں نے تجھ کو مالک بنا دیا۔ یہ اس وقت ہوا جب کہ سائل کے گھر میں ایک لوہے کی انگوٹھی یا چھلا بھی نہ تھا مگر مرزا صاحب کی جسارت ملاحظہ ہو کہ آپ لکھتے ہیں ” بلکہ مہر مؤجل مقر ر کر دیا ہوگا “ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تفصیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ضرور ذکر فرماتے مگر صاف واضح ہے کہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ محض قیاسی افتراءبازی کی ہے جس کی بنا پر آپ حضرت امام بخازی رحمۃاللہ علیہ کی فقاہت حدیث پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی فہم کے آگے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فہم حدیث کو ہیچ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ پاک حضرت مرزا صاحب کی اس جسارت کو معاف فرمائے۔ در اصل تعصب تقلیداتنا برا مرض ہے کہ آدمی اس میں بالکل اندھا بہرہ بن کر حقیقت سے بالکل دور ہوجاتا ہے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جو مسئلہ ثابت فرمایا ہے وہ ایسے حالات میں یقینا ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ولا شک فیہ علی رغم انوف المقلدین الجامدین رحمھم اللہ اجمعین اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطور ولی کے تھے۔ آپ سے اس شخص نے اس عورت سے نکاح کردینے کی درخواست کی، آپ نے نکاح کرادیا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ہوگئی۔ مرزا حیرت صاحب مرحوم کی حیرت انگیز جسارت ! حضرت مرزا حیرت صاحب مرحوم نے بھی بخاری شریف کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا مگر بعض بعض جگہ آپ حیر ت انگیز جسارت سے کام لے جاتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے ذیل آپ کی جسارت ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں : ” بخاری اس حدیث سے یہ سمجھ گئے کہ تعلیم قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہر قرار دیا حالانکہ اس سے لازم نہیں آتا۔ بلکہ مہر مؤ جل مقرر کردیا ہوگا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے بزرگی قرآن یاد ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح تجھ سے کر دیا۔ بخاری نے باء کا معنی عوض کے لے کر مسئلہ قائم کردیا حالانکہ باءمسببہ ہے ( صحیح بخاری ، جلد : سوم /ص22 ) مرزا صاحب مرحوم نے حضرت امیر المومنین فی الحدیث کو جس لا ابالی پن سے یاد کیا ہے وہ آپ کی حیرت انگیز جسارت ہے پھر مزید جسارت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کر دینے کی بڑی ہی بھونڈی تصویر پیش کی ہے۔ جس کے صاف الفاظ یہ ہیں ( فقد ملکتکھا بما معک من القرآن ) تجھ کو جو قرآن زبانی یاد ہے اس کے عوض اس عورت کا میں نے تجھ کو مالک بنا دیا۔ یہ اس وقت ہوا جب کہ سائل کے گھر میں ایک لوہے کی انگوٹھی یا چھلا بھی نہ تھا مگر مرزا صاحب کی جسارت ملاحظہ ہو کہ آپ لکھتے ہیں ” بلکہ مہر مؤجل مقر ر کر دیا ہوگا “ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تفصیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ضرور ذکر فرماتے مگر صاف واضح ہے کہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ محض قیاسی افتراءبازی کی ہے جس کی بنا پر آپ حضرت امام بخازی رحمۃاللہ علیہ کی فقاہت حدیث پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی فہم کے آگے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فہم حدیث کو ہیچ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ پاک حضرت مرزا صاحب کی اس جسارت کو معاف فرمائے۔ در اصل تعصب تقلیداتنا برا مرض ہے کہ آدمی اس میں بالکل اندھا بہرہ بن کر حقیقت سے بالکل دور ہوجاتا ہے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جو مسئلہ ثابت فرمایا ہے وہ ایسے حالات میں یقینا ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ولا شک فیہ علی رغم انوف المقلدین الجامدین رحمھم اللہ اجمعین