‌صحيح البخاري - حدیث 5136

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لاَ يُنْكِحُ الأَبُ وَغَيْرُهُ البِكْرَ وَالثَّيِّبَ إِلَّا بِرِضَاهَا صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْكُتَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5136

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: باپ یا کوئی دوسرا ولی کنواری یا بیوہ۔۔۔ ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے ، ان سے یحییٰ بن ابی بشیر نے ، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا بیوہ عورت کانکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجاز ت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی صور ت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے ۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی ۔
تشریح : خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور بعض اہلحدیث کا یہی قول معلوم ہو تا ہے۔ لیکن اکثر علماءنے یہ کہا ہے بلکہ اس پر اجماع ہوگیا ہے کہ کنواری چھوٹی ( یعنی نابالغ لڑکی ) کا نکاح اس کا باپ کرسکتاہے ، اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے اور ثیبہ بالغہ کا نکاح اس کے پوچھے بغیر جائز نہیں اتفاقاً نہ باپ کو نہ اور کسی ولی کو۔ اب رہ گئی کنواری نابالغہ اور ثیبہ نابالغہ ان میں اختلاف ہے۔ کنواری نابالغہ سے بھی حنفیہ کے نزدیک اذن لیناچاہئے اور امام مالک اور امام شافعی اورہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک باپ کو اس سے اذن لینے کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح دادا کو بھی اگر باپ حاضر نہ ہو۔ حدیث سے اذن لینے کی تائید ہوتی ہے اور حضرت امام شوکانی نے اہلحدیث کا یہی مذہب قراردیاہے لیکن ثیبہ نابالغہ تو امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ باپ اس کا نکاح کرسکتا ہے اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اور امام شافعی اور امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ ثیبہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ شرم نہیں کرتی بہر حال نابالغ عورت کا نکاح اگر کیا جائے اور اس میں اجازت بھی لی جائے تو بعد بلوغ اس کو اختیار باقی رہتاہے۔ خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور بعض اہلحدیث کا یہی قول معلوم ہو تا ہے۔ لیکن اکثر علماءنے یہ کہا ہے بلکہ اس پر اجماع ہوگیا ہے کہ کنواری چھوٹی ( یعنی نابالغ لڑکی ) کا نکاح اس کا باپ کرسکتاہے ، اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے اور ثیبہ بالغہ کا نکاح اس کے پوچھے بغیر جائز نہیں اتفاقاً نہ باپ کو نہ اور کسی ولی کو۔ اب رہ گئی کنواری نابالغہ اور ثیبہ نابالغہ ان میں اختلاف ہے۔ کنواری نابالغہ سے بھی حنفیہ کے نزدیک اذن لیناچاہئے اور امام مالک اور امام شافعی اورہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک باپ کو اس سے اذن لینے کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح دادا کو بھی اگر باپ حاضر نہ ہو۔ حدیث سے اذن لینے کی تائید ہوتی ہے اور حضرت امام شوکانی نے اہلحدیث کا یہی مذہب قراردیاہے لیکن ثیبہ نابالغہ تو امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ باپ اس کا نکاح کرسکتا ہے اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اور امام شافعی اور امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ ثیبہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ شرم نہیں کرتی بہر حال نابالغ عورت کا نکاح اگر کیا جائے اور اس میں اجازت بھی لی جائے تو بعد بلوغ اس کو اختیار باقی رہتاہے۔