‌صحيح البخاري - حدیث 5127

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ صحيح قَالَ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ ح و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوْ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ وَنِكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمْ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5127

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں ہوتا ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہاہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا ہم سے احمدبن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبردی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے ۔ ایک صورت تویہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پا س اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا ۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کر الے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں ۔ پھر جب اس غیر مر د سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی ، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا ۔ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو ۔ یہ نکاح ” استبضاع “ کہلاتاتھا ۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میںدس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے ۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پرچند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی ۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکا ر نہیں کرسکتا تھا ۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھاوہ تمہیں معلوم ہے اور اب میںنے یہ بچہ جناہے ۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں ! یہ بچہ تمہاراہے ۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا ، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتاتھا ۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیاجایا کرتے تھے ۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کوروکتی نہیںتھی ۔ یہ کسبیاںہوتی تھیں ۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوںپرجھنڈے لگائے رہتی تھیںجو نشانی سمجھے جاتے تھے ۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا ۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہو تے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کاناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہو تا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اوروہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جا تا ، اس سے کو ئی انکار نہیں کر تا تھا ۔ پھر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے ۔
تشریح : اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے پہلی قسم نکاح کی جو اسلام کے زمانہ میں بھی باقی رہی ہے بیا ن کی کہ ایک مرد عورت کے ولی کو پیغام بھیجتا وہ مہر ٹھہرا کراس کا نکاح کر دیتا۔ معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے پہلی قسم نکاح کی جو اسلام کے زمانہ میں بھی باقی رہی ہے بیا ن کی کہ ایک مرد عورت کے ولی کو پیغام بھیجتا وہ مہر ٹھہرا کراس کا نکاح کر دیتا۔ معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔