‌صحيح البخاري - حدیث 5120

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ عَرْضِ المَرْأَةِ نَفْسَهَا عَلَى الرَّجُلِ الصَّالِحِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَنَسٍ وَعِنْدَهُ ابْنَةٌ لَهُ قَالَ أَنَسٌ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْرِضُ عَلَيْهِ نَفْسَهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَكَ بِي حَاجَةٌ فَقَالَتْ بِنْتُ أَنَسٍ مَا أَقَلَّ حَيَاءَهَا وَا سَوْأَتَاهْ وَا سَوْأَتَاهْ قَالَ هِيَ خَيْرٌ مِنْكِ رَغِبَتْ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَتْ عَلَيْهِ نَفْسَهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5120

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: عورت کا اپنے آپ کوصالح مرد کے نکاح۔۔۔ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے مرحوم بن عبدالعزیز بصری نے بیان کیا ، کہاکہ میں نے ثابت بنانی سے سنا ، انہوں نے بیان کیاکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا اور ان کے پاس ان کی بیٹی بھی تھیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ کو میری ضرورت ہے ؟ اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بیٹی بولیں کہ وہ کیسی بے حیا عورت تھی ۔ ہائے بے شرمی ! ہائے بے شرمی ! حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا وہ تم سے بہتر تھیں ، ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رغبت تھی ، اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کیا ۔
تشریح : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کو ڈانٹا اوراس خاتون کے اس اقدام کو محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر محمول کرکے اس کی تعریف فرمائی۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکالا کہ نیک بخت اوردیند ار مرد کے سامنے اگر عورت اپنے آپ کو نکاح کے لئے پیش کرے تو اس میں کوئی عار کی بات نہیں ہے البتہ دنیا وی غرض سے ایسا کرنا براہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کو ڈانٹا اوراس خاتون کے اس اقدام کو محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر محمول کرکے اس کی تعریف فرمائی۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکالا کہ نیک بخت اوردیند ار مرد کے سامنے اگر عورت اپنے آپ کو نکاح کے لئے پیش کرے تو اس میں کوئی عار کی بات نہیں ہے البتہ دنیا وی غرض سے ایسا کرنا براہے۔