‌صحيح البخاري - حدیث 5116

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ نَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَنْ نِكَاحِ المُتْعَةِ آخِرًا صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ فَرَخَّصَ فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الْحَالِ الشَّدِيدِ وَفِي النِّسَاءِ قِلَّةٌ أَوْ نَحْوَهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَعَمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5116

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: نکاح متعہ سے ممانعت ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ، ان سے ابو جمرہ نے بیان کیا ، کہا میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ، ان سے عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ کرنے کے متعلق سوال کیا گیاتھا تو انہوں نے اس کی اجازت دی ، پھر ان کے ایک غلام نے ان سے پوچھا کہ اس کی اجازت سخت مجبوری یا عورتوں کی کمی یا اسی جیسی صورتوں میں ہوگی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہاں ۔
تشریح : یہ حرمت سے قبل کی بات ہے بعد میں ہر حالت میں ہر شخص کے لئے متعہ حرام قرار دے دیا گیاجو قیامت تک کے لئے حرام ہے۔ ان التحریم والاباحۃ کانتا مرتین فکانت حلالۃ قبل خیبر ثم حرمت یوم خیبرثم ابیحت یوم اوطاس ثم حرمت یومئذ بعد ثلاثۃ ایام تحریما موبدا الی یوم القیٰمۃ واستمرالتحریم کما فی روایۃ مسلم عن سبرۃ الجہنی انہ کان مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یایھا الناس انی قد کنت اٰذنت لکم فی الاستمتاع من النساءوا ن اللہ قد حرم ذالک الی یوم القیٰمۃ فمن کان عند ہ منھن شی فلیخل سبیلہ فلعل علیا لم یبلغہ الاباحۃ یوم اوطاس لقلتھا کما روی مسلم رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام اوطاس فی المتعۃ ثلاثا ثم نہی عنھا ( حاشیۃ بخاری ) یعنی متعہ کی حرمت اور اباحت دو مرتبہ ہوئی ہے خیبر سے پہلے متعہ حلال تھاپھر خیبر میں اسے حرام قرار دیا گیا پھر جنگ اوطاس میں اسے حلال کیا گیا پھر تین دن کے بعد یہ ہمیشہ قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیااور یہ تحریم دائمی ہے جیساکہ سبرہ کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی مگر اب اسے اللہ نے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے پس جن کے پاس کوئی متعہ والی عورت ہو تواسے فوراً نکال دو پس شاید علی رضی اللہ عنہ کو یوم اوطاس کی حلت اور دوبارہ حرمت کا علم نہیں ہوسکا کیونکہ یہ حلت صرف تین دن رہی بعد میں حرام مطلق ہونے کا اعلان کردیاگیا۔ اب متعہ قیامت تک کے لئے کسی بھی حالت میں حلال نہیں ہے آج کے بعض متجدد اپنی تجدد پسند ی چمکانے کے لئے متعہ کی حرمت میں کچھ موشگافیاں کرتے ہیں جو محض اباطیل ہیں۔ شیعہ حضرات کو چھوڑ کر اہل سنت والجماعت کے جملہ فرقے اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اب متعہ کے حلال ہونے کے لئے کوئی بھی صورت سامنے آجائے مگر متعہ ہمیشہ کے لئے ہر حال میں حرام قرار دیا گیا ہے، اس کی حلت کے لئے کوئی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔ یہ حرمت سے قبل کی بات ہے بعد میں ہر حالت میں ہر شخص کے لئے متعہ حرام قرار دے دیا گیاجو قیامت تک کے لئے حرام ہے۔ ان التحریم والاباحۃ کانتا مرتین فکانت حلالۃ قبل خیبر ثم حرمت یوم خیبرثم ابیحت یوم اوطاس ثم حرمت یومئذ بعد ثلاثۃ ایام تحریما موبدا الی یوم القیٰمۃ واستمرالتحریم کما فی روایۃ مسلم عن سبرۃ الجہنی انہ کان مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یایھا الناس انی قد کنت اٰذنت لکم فی الاستمتاع من النساءوا ن اللہ قد حرم ذالک الی یوم القیٰمۃ فمن کان عند ہ منھن شی فلیخل سبیلہ فلعل علیا لم یبلغہ الاباحۃ یوم اوطاس لقلتھا کما روی مسلم رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام اوطاس فی المتعۃ ثلاثا ثم نہی عنھا ( حاشیۃ بخاری ) یعنی متعہ کی حرمت اور اباحت دو مرتبہ ہوئی ہے خیبر سے پہلے متعہ حلال تھاپھر خیبر میں اسے حرام قرار دیا گیا پھر جنگ اوطاس میں اسے حلال کیا گیا پھر تین دن کے بعد یہ ہمیشہ قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیااور یہ تحریم دائمی ہے جیساکہ سبرہ کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی مگر اب اسے اللہ نے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے پس جن کے پاس کوئی متعہ والی عورت ہو تواسے فوراً نکال دو پس شاید علی رضی اللہ عنہ کو یوم اوطاس کی حلت اور دوبارہ حرمت کا علم نہیں ہوسکا کیونکہ یہ حلت صرف تین دن رہی بعد میں حرام مطلق ہونے کا اعلان کردیاگیا۔ اب متعہ قیامت تک کے لئے کسی بھی حالت میں حلال نہیں ہے آج کے بعض متجدد اپنی تجدد پسند ی چمکانے کے لئے متعہ کی حرمت میں کچھ موشگافیاں کرتے ہیں جو محض اباطیل ہیں۔ شیعہ حضرات کو چھوڑ کر اہل سنت والجماعت کے جملہ فرقے اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اب متعہ کے حلال ہونے کے لئے کوئی بھی صورت سامنے آجائے مگر متعہ ہمیشہ کے لئے ہر حال میں حرام قرار دیا گیا ہے، اس کی حلت کے لئے کوئی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔