‌صحيح البخاري - حدیث 5108

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لاَ تُنْكَحُ المَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا وَقَالَ دَاوُدُ وَابْنُ عَوْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5108

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: پھوپھی،خالہ نکاح میں ہو توبھتیجی،بھانجی۔۔۔ ہم سے عبد الرحمن نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبد اللہ نے خبردی ، کہاہم کو عاصم نے خبردی ، انہیں شعبی نے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع کیاتھا جس کی پھوپھی یا خالہ اس کے نکاح میں ہو ۔ اور داؤ د بن عون نے شعبی سے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ۔
تشریح : ابن منذر نے کہا ان پر علماءکا اجماع ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت بھی ہے کہ دو پھوپھیوں اور خالاؤں میں بھی جمع کرنا مکروہ ہے۔ قسطلانی نے کہا پھوپھی میں دادا کی بہن ، ناناکی بہن ، ان کے باپ کی بہن ، اسی طرح خالہ میں نانی کی بہن ، نانی کی ماں سب داخل ہیں اور اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ان دو عورتوں کا نکاح میں جمع کرنا درست نہیں ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد فرض کریں تو دوسری عورت اس کی محرم ہو البتہ اپنی جوروکے ماموں کی بیٹی یاچچا کی بیٹی یا پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کر سکتاہے۔ اسلام کا یہ وہ پرسنل لاءہے جس پر اسلام کو فخر ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کے لئے ایک بہترین پرسنل لاءدیا ہے۔ اس کے مقرر کردہ اصول وقوانین قیامت تک کے لئے کسی بھی رد وبدل سے بالا ہیں۔ دنیا میں کتنے ہی انقلابات آئیں نوع انسانی میں کتنا ہی انقلاب برپا ہومگر اسلامی قوانین برابر قائم رہیں گے کسی بھی حکومت کو ان میں دست اندازی کا حق نہیں ہے سچ ہے۔ مایبد ل القول لدی وما انا بظلام للعبید ( ق: 29 ) ہاں جو غلط قانون لوگوںنے از خود بنا کر اسلام کے ذمہ لگا دئیے ہیں ان کا بدلنا بے حد ضروری ہے۔ ابن منذر نے کہا ان پر علماءکا اجماع ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت بھی ہے کہ دو پھوپھیوں اور خالاؤں میں بھی جمع کرنا مکروہ ہے۔ قسطلانی نے کہا پھوپھی میں دادا کی بہن ، ناناکی بہن ، ان کے باپ کی بہن ، اسی طرح خالہ میں نانی کی بہن ، نانی کی ماں سب داخل ہیں اور اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ان دو عورتوں کا نکاح میں جمع کرنا درست نہیں ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد فرض کریں تو دوسری عورت اس کی محرم ہو البتہ اپنی جوروکے ماموں کی بیٹی یاچچا کی بیٹی یا پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کر سکتاہے۔ اسلام کا یہ وہ پرسنل لاءہے جس پر اسلام کو فخر ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کے لئے ایک بہترین پرسنل لاءدیا ہے۔ اس کے مقرر کردہ اصول وقوانین قیامت تک کے لئے کسی بھی رد وبدل سے بالا ہیں۔ دنیا میں کتنے ہی انقلابات آئیں نوع انسانی میں کتنا ہی انقلاب برپا ہومگر اسلامی قوانین برابر قائم رہیں گے کسی بھی حکومت کو ان میں دست اندازی کا حق نہیں ہے سچ ہے۔ مایبد ل القول لدی وما انا بظلام للعبید ( ق: 29 ) ہاں جو غلط قانون لوگوںنے از خود بنا کر اسلام کے ذمہ لگا دئیے ہیں ان کا بدلنا بے حد ضروری ہے۔